خوش فہمیوں کے کھیل کی اب کیا سبیل ہے
خوش فہمیوں کے کھیل کی اب کیا سبیل ہے
کاغذ کی ایک ناؤ ہے اور خشک جھیل ہے
سر پر اٹھائے دھوپ کو سورج کی طرح چل
منزل کہاں یہ سلسلۂ سنگ میل ہے
لاشوں کے ڈھیر میں ابھی زندہ تو ہوں مگر
میرے بھی سر پہ اڑتی ہوئی ایک چیل ہے
سایہ بھی بند مٹھی میں رکھتا ہے بھینچ کر
اونچا سا یہ درخت نہایت بخیل ہے
میں گھاؤ گہرے پانیوں کا ہوں نہ مجھ سے مل
تو مجھ میں ڈوب جائے گی ننھی سی جھیل ہے
دروازے کھڑکی مجھ پہ مصورؔ ہیں سب ہی بند
سرما کا ٹھٹھرا چاند ہے اور شب طویل ہے