تنہا شجر کے درد کا احساس دے گیا
تنہا شجر کے درد کا احساس دے گیا
اک شخص مجھ کو جسم کا بن باس دے گیا
لب ہائے نیلگوں پہ ہیں اس کی امانتیں
جاتے لبوں کا جوہر الماس دے گیا
جس میں کبھی بھی عکس کی کرچیں نہیں رہیں
ٹوٹا ہوا وہ شیشۂ احساس دے گیا
اب تک ہے میرے ہاتھوں میں خوشبو رچی ہوئی
مصلوب ہو کے پھول بہت باس دے گیا
اک رود بے وفائی میں مجھ کو بہا کے آج
ساتوں سمندروں کی کوئی پیاس دے گیا
اک نا مراد افق پہ ہے کہرے کا چاند سا
کیسی مصورؔ آس وہ بے آس دے گیا