میں ایک پل کی تھا خوشبو کدھر نکل آیا
میں ایک پل کی تھا خوشبو کدھر نکل آیا
چلا میں مجھ کو ہوا کا سفر نکل آیا
نہ کھینچنی تھی تمہیں سطح آب کی چادر
کبھی کا گھات میں بیٹھا بھنور نکل آیا
برہنگی کو تماشا بھی دردناک ملا
بدن کے رنگ جب اترے کھنڈر نکل آیا
وہ ایک ابر تو بجلی سے رات بھر لڑتا
ہوا کے میان سے خنجر مگر نکل آیا
سکوت آب سے ڈر کر جو ماری چیخ اس نے
تو اک کٹا ہوا دریا سے سر نکل آیا
شکست و ریخت کے ہاتھوں نے کچھ دیا تو سہی
گرا مکان تو گڑیا کا گھر نکل آیا