Murtaza Barlas

مرتضیٰ برلاس

  • 1934

مرتضیٰ برلاس کی غزل

    صدا یہ کس کی ہے جو دور سے بلائے مجھے

    صدا یہ کس کی ہے جو دور سے بلائے مجھے قریب جاؤں تو کچھ بھی نظر نہ آئے مجھے میں بجھتے بجھتے دھوئیں کی لکیر چھوڑوں گا یہ باد تند ذرا سوچ کر بجھائے مجھے غروب کے نہیں آثار یہ تو پھر کیا ہیں کہ جسم سے بڑے لگتے ہیں اب تو سائے مجھے جلا ہو دھوپ میں اور خال و خد نہ بگڑے ہوں بھرے جہاں میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    ویسے تمہیں تو آتا نظر سب درست ہے

    ویسے تمہیں تو آتا نظر سب درست ہے چہرے ہیں کیوں اداس اگر سب درست ہے جالے تنے ہوئے ہیں دریچوں میں شہر کے کہتا ہے شہر یار مگر سب درست ہے حل یوں ہوا ہے تشنگیٔ تیغ کا سوال مقتل میں ہو کسی کا بھی سر سب درست ہے مقصد تو تجربہ ہے دوا کا شفا نہیں کچھ بھی مریض پر ہو اثر سب درست ہے جنت تو ...

    مزید پڑھیے

    غیر کے آگے یہ سر خم دیکھیے کب تک رہے

    غیر کے آگے یہ سر خم دیکھیے کب تک رہے بے حسی کا اب یہ عالم دیکھیے کب تک رہے دوست اور دشمن کے چہرے تا بہ کے واضح نہ ہوں دیپ کی لو اتنی مدھم دیکھیے کب تک رہے کب دعائیں مستجب ہوں کب ہمارے دن پھریں دل پریشاں آنکھ پر نم دیکھیے کب تک رہے روشنی کے جشن میں حائل نہ تھے شب کے رفیق چاند تارے ...

    مزید پڑھیے

    بے حس و کج فہم و لا پروا کہے

    بے حس و کج فہم و لا پروا کہے کل مورخ جانے ہم کو کیا کہے اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں جس طرح بہرا سنے گونگا کہے راز ہائے ضبط غم کیا چھپ سکیں ہونٹ جب خاموش ہوں چہرہ کہے اس لیے ہر شخص کو دیکھا کیا کاش کوئی تو مجھے اپنا کہے ہے تکلم آئینہ احساس کا جس کی جیسی سوچ ہو ویسا کہے پڑھ چکے ...

    مزید پڑھیے

    تم اک ایسے شخص کو پہچانتے ہو یا نہیں

    تم اک ایسے شخص کو پہچانتے ہو یا نہیں جس کا چہرہ بولتا ہے اور لب گویا نہیں صبح کو دیکھا تو دو گھاؤ مرے چہرے پہ تھے رات کچھ رونے کی خواہش تھی مگر رویا نہیں پھیلتا جاتا ہے خود رو سبزۂ غم چار سو کھیت وہ کاٹوں گا جو میں نے کبھی بویا نہیں خواب دیکھا تھا کوئی بچپن کی کچی نیند میں دوستو ...

    مزید پڑھیے

    تم اگر چاہو کبھی بپھرا سمندر دیکھنا

    تم اگر چاہو کبھی بپھرا سمندر دیکھنا چودھویں میں تم مری آنکھوں کا منظر دیکھنا جو حوالے سے مرے محفل میں پہچانے گئے ذکر پر میرے انہی لوگوں کے تیور دیکھنا زخم گن کر کیا کرو گے کار جاں سوزی ہے یہ جو پڑے ہوں گے ابھی رستے میں پتھر دیکھنا لوگ کہتے ہیں کہ تم پتھر ہو انساں تو نہیں اب تو ...

    مزید پڑھیے

    جنوں کا ذکر مرا عام ہو گیا تو کیا

    جنوں کا ذکر مرا عام ہو گیا تو کیا میں تیرے شہر میں بدنام ہو گیا تو کیا کوئی اصول مرا مطمح نظر تو رہا شہید حسرت ناکام ہو گیا تو کیا جہاں نے کس کو سزاوار‌ آگہی جانا جو میں بھی مورد الزام ہو گیا تو کیا کوئی صلیب پہ لٹکا کسی نے زہر پیا مرا بھی گر یہی انجام ہو گیا تو کیا ہزار شمعیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ہی نہیں جو تیری طلب میں ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں

    ہم ہی نہیں جو تیری طلب میں ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں اور بہت سے خاک اڑائے بال بکھیرے پھرتے ہیں پاس اگر سرمایۂ دل ہے سائے سے ہوشیار رہو ان راہوں میں بھیس بدل کر چور لٹیرے پھرتے ہیں میں نے سنا ہے صحرا پر بھی چھینٹا تو پڑ جاتا ہے دیکھنا یہ ہے شومئی قسمت کب دن میرے پھرتے ہیں راہ خرد سے ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر آنکھوں کا دروازہ کھلا رہنا ہی تھا

    عمر بھر آنکھوں کا دروازہ کھلا رہنا ہی تھا کب پلٹ آئے کوئی دھڑکا لگا رہنا ہی تھا جب خلوص دل نہ شامل ہو تو پھر کیسا ملاپ ساتھ اٹھتے بیٹھتے بھی مسئلہ رہنا ہی تھا چاہے ہم کوئی جتن کرتے مگر ہونا تھا کیا بے سبب تھا جو خفا اس کو خفا رہنا ہی تھا خامشی سے بھی مرے دل میں کسک رہنی ہی ...

    مزید پڑھیے

    نیند بھی تیرے بنا اب تو سزا لگتی ہے

    نیند بھی تیرے بنا اب تو سزا لگتی ہے چونک پڑتا ہوں اگر آنکھ ذرا لگتی ہے فاصلہ قرب بنا قرب بھی ایسا کہ مجھے دل کی دھڑکن ترے قدموں کی صدا لگتی ہے دشمن جاں ہی سہی دوست سمجھتا ہوں اسے بد دعا جس کی مجھے بن کے دعا لگتی ہے خود اگر نام لوں تیرا تو لرزتا ہے بدن غیر گر بات کرے چوٹ سوا لگتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4