تم اگر چاہو کبھی بپھرا سمندر دیکھنا
تم اگر چاہو کبھی بپھرا سمندر دیکھنا
چودھویں میں تم مری آنکھوں کا منظر دیکھنا
جو حوالے سے مرے محفل میں پہچانے گئے
ذکر پر میرے انہی لوگوں کے تیور دیکھنا
زخم گن کر کیا کرو گے کار جاں سوزی ہے یہ
جو پڑے ہوں گے ابھی رستے میں پتھر دیکھنا
لوگ کہتے ہیں کہ تم پتھر ہو انساں تو نہیں
اب تو مجبوراً پڑے گا تم کو چھو کر دیکھنا
آج تک بھی مصلحت کوشی ہمیں آئی نہیں
ہے یہی تو ایک خامی اپنے اندر دیکھنا
اس کو اب ہم ظلم سمجھیں یا کہ غم خواری تری
خود رلانا اور پھر ہمدرد بن کر دیکھنا
یہ نہ ہو کہ نامکمل ہی رہے منزل کا خواب
تیز رفتاری میں لگ جاتی ہے ٹھوکر دیکھنا
جب کھڑے ہوں گے یہ سب فرعون ملزم کی طرح
وہ عدالت جو لگے گی روز محشر دیکھنا