جنوں کا ذکر مرا عام ہو گیا تو کیا
جنوں کا ذکر مرا عام ہو گیا تو کیا
میں تیرے شہر میں بدنام ہو گیا تو کیا
کوئی اصول مرا مطمح نظر تو رہا
شہید حسرت ناکام ہو گیا تو کیا
جہاں نے کس کو سزاوار آگہی جانا
جو میں بھی مورد الزام ہو گیا تو کیا
کوئی صلیب پہ لٹکا کسی نے زہر پیا
مرا بھی گر یہی انجام ہو گیا تو کیا
ہزار شمعیں جلا کر ضیا بکھیر گیا
خموش میں جو سر شام ہو گیا تو کیا
حریف گردش ایام تو رہا برسوں
میں آج کشتۂ آلام ہو گیا تو کیا