Murtaza Barlas

مرتضیٰ برلاس

  • 1934

مرتضیٰ برلاس کی غزل

    اس مسیحائی کے صدقے کام جاں تک آ گئی

    اس مسیحائی کے صدقے کام جاں تک آ گئی تجربے کرتے ہوئے نوبت یہاں تک آ گئی اب تو گہواروں پہ خادم رکھ لیے ماں باپ نے مامتا تخمینۂ سود و زیاں تک آ گئی تو نے کوشش تو یہی کہ تھی کہ گھر میرا جلے آگ جب بھڑکی تو پھر تیرے مکاں تک آ گئی اس نظام آب و گل میں زہر پھیلانے کے بعد پھر وہی شورش زمیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے

    ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے شوق سے تو مجھے اب قوت پرداز نہ دے دائرے ٹوٹ نہ جائیں مرے خوابوں کے کہیں سو گیا ہوں مجھے اب کوئی بھی آواز نہ دے تجھ کو دینا ہے اگر تلخی انجام کا زہر دینے والے مجھے خوش فہمیٔ آغاز نہ دے راز داروں کا کہا مان کے یہ حال ہوا مشورہ کوئی مجھے اب مرا ...

    مزید پڑھیے

    بدن میں جاگ اٹھی کپکپاہٹیں کیسی

    بدن میں جاگ اٹھی کپکپاہٹیں کیسی میں سن رہا ہوں یہ فردا کی آہٹیں کیسی مکیں کو یاد ہزیمت کی داستاں ہے مگر تو اس کے گھر میں ہیں یہ جگمگاہٹیں کیسی شکست دل کا جو احساس اب بھی زندہ ہے تو پھر یہ ہونٹوں پہ ہیں مسکراہٹیں کیسی وجود ٹوٹ رہا ہو تو کیسی نغمہ گری جو دل سکوں سے نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے

    چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے دریا میں سارا زور ہی طغیانیوں کا ہے خود رہبران قوم ہیں آلائشوں میں گم ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے احباب میرے اس طرح مجھ پر ہیں طعنہ زن جیسے خلوص نام ہی نادانیوں کا ہے ساحل جو کٹ کے گرتے ہیں دریا کی گود میں کیا یہ قصور بہتے ہوئے پانیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی

    اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی صحرا نصیب کے لیے چھاؤں گھنی رہی وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی پتھر کا بت، سمجھ کہ یہ کس شے کو چھو لیا برسوں تمام جسم میں اک سنسنی رہی اس جان گل کو دیکھتے کیسے کہ آج تک اک رنگ و بو کی سامنے چادر تنی ...

    مزید پڑھیے

    ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا

    ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا محسوس جو کیا وہی بر جستہ کہہ دیا خورشید صبح نو کو شکایت ہے دوستو کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا میں چپ ہوا تو زخم مرے بولنے لگے سب کچھ زبان حال سے لب بستہ کہہ دیا چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا ٹھہرا ذرا تو آپ نے پابستہ کہہ دیا دیکھی ...

    مزید پڑھیے

    وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا

    وعدہ جو تھا نباہ کا تم نے وفا نہیں کیا ہم نے تو آج تک تمہیں دل سے جدا نہیں کیا ہم ہی وہ کم نصیب تھے مانگے ملی نہ موت بھی آپ کا کیا قصور ہے آپ نے کیا نہیں کیا موم ہوئے پگھل گئے سنگ بنے چٹخ گئے پھر بھی زباں سے آج تک ہم نے گلہ نہیں کیا دشت طلب میں ہر صدا گونج بنی بکھر گئی کس کو سلگتی ...

    مزید پڑھیے

    یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے

    یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے خلوص چاہا تو پتھر جواب میں آئے خوشا وہ شوق کہ در در لیے پھرا مجھ کو زہ نصیب کہ تم انتخاب میں آئے ہزار ضبط کروں لاکھ دل کو بہلاؤں مگر وہ شکل جو ہر روز خواب میں آئے میں کیا کہوں کہ ترا ذکر غیر سے سن کر جو وسوسے دل خانہ خراب میں آئے ہے شہریار کی قربت ...

    مزید پڑھیے

    کاش بادل کی طرح پیار کا سایا ہوتا

    کاش بادل کی طرح پیار کا سایا ہوتا پھر میں دن رات ترے شہر پہ چھایا ہوتا راہ میں آگ کے دریا سے گزرنا تھا اگر تو نے خوابوں کا جزیرہ نہ دکھایا ہوتا مجھ سی تخلیق کا الزام نہ آتا تجھ پر میں اگر نقش غلط تھا نہ بنایا ہوتا خواب ٹوٹے تھے اگر تیرے بھی میری ہی طرح بوجھ کچھ تیری بھی پلکوں نے ...

    مزید پڑھیے

    نہر جس لشکر کی نگرانی میں تب تھی اب بھی ہے

    نہر جس لشکر کی نگرانی میں تب تھی اب بھی ہے خیمے والوں کی جو بستی تشنہ لب تھی اب بھی ہے اڑ رہے ہیں وقت کی رفتار سے مغرب کی سمت وقت آغاز سفر جو تیرہ شب تھی اب بھی ہے وقت جیسے ایک ہی ساعت پہ آ کے رک گیا پہلے جس شدت سے جو دل میں طلب تھی اب بھی ہے ہم شکایت آنکھ کی پلکوں سے کرتے کس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4