Murtaza Barlas

مرتضیٰ برلاس

  • 1934

مرتضیٰ برلاس کی غزل

    ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے‌ جنوں کچھ سوا کر چلے

    ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے‌ جنوں کچھ سوا کر چلے خود تو جیسے کٹی زندگی کاٹ لی ہاں نئے دور کی ابتدا کر چلے زرد سورج کی مشعل بھی کجلا گئی چاند تاروں کو بھی نیند سی آ گئی اب کسی کو اگر روشنی چاہئے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا کر چلے حال اپنا ہر اک سے چھپاتے رہے زخم کھاتے رہے ...

    مزید پڑھیے

    ساقی گری کا فرض ادا کر دیا گیا

    ساقی گری کا فرض ادا کر دیا گیا پانی کا گھونٹ زہر ملا کر دیا گیا بس تجربوں کی نذر ہوئے اپنے سارے خواب کیا ہم نے کرنا چاہا تھا کیا کر دیا گیا وابستگی کسی کی تو اس غم کدے سے ہے ورنہ یہاں پہ کون جلا کر دیا گیا اب قید ختم ہونے کی وہ کیا خوشی منائے پر قینچ کر کے جس کو رہا کر دیا ...

    مزید پڑھیے

    سادگی یوں آزمائی جائے گی

    سادگی یوں آزمائی جائے گی نت نئی تہمت لگائی جائے گی جاگتے گزری ہے ساری زندگی اب ہمیں لوری سنائی جائے گی سوچ کا روزن بھی آخر کیوں رہے روشنی یہ بھی بجھائی جائے گی سب پرانے گھر گرائے جائیں گے اک نئی دنیا بسائی جائے گی دوڑ ہوگی اور وہ بھی شوقیہ دھول بستی میں اڑائی جائے گی آسماں ...

    مزید پڑھیے

    اک خواب لڑکپن میں جو دیکھا تھا وہ تم تھے

    اک خواب لڑکپن میں جو دیکھا تھا وہ تم تھے پیکر جو تصور میں ابھرتا تھا وہ تم تھے اک ایسا تعلق جو تعلق بھی نہیں تھا پھر بھی میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ تم تھے تھا قرب کی خواہش میں بھی کچھ حسن عجب سا جو گرد مرے رنگ تھا نغمہ تھا وہ تم تھے یک دم جو یہ تنہائی مہکنے سی لگی تھی جھونکا جو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے

    آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے جب میں نہ تھا تو میری زمانے میں گونج تھی اب میں ہوں اور سارے زمانے کا درد ہے سورج میں آج جتنی تپش ہے کبھی نہ تھی کیا کیجئے کہ خوں ہی رگ و پے میں سرد ہے ہم کس سفر پہ نکلے کہ شکلیں بدل گئیں چہرے پہ جس کے دیکھو مسافت ...

    مزید پڑھیے

    موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے

    موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے پاؤں ڈالا تو یہ دریا ملا پایاب مجھے بت تو دنیا نے بہ ہر گام تراشے لیکن سر جھکانے کے نہ آئے کبھی آداب مجھے شدت کرب سے کمھلا گئے چہرے کے خطوط اب نہ پہچان سکیں گے مرے احباب مجھے ایک سایہ کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے ایک آواز کہ کرتی رہے بیتاب ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح

    آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی میں ترے دل میں ...

    مزید پڑھیے

    جب ذرا ہوئی آہٹ شاخ پر ہلے پتے

    جب ذرا ہوئی آہٹ شاخ پر ہلے پتے پیڑ سو گئے لیکن جاگتے رہے پتے سیکڑوں پرندوں نے اوڑھ لی ردا جیسے رات کی سیاہی میں اوٹ بن گئے پتے سرخ خون شاخوں کا ہے وجود میں شامل دیکھ کر فضا لیکن سبز ہو گئے پتے جیسے ان کے دامن پر دھول تھی نہ دھبہ تھا اک ذرا سی بارش سے کیسے دھل گئے پتے جب بھی لو ...

    مزید پڑھیے

    کس کس کا منہ بند کرو گے کس کس کو سمجھاؤ گے

    کس کس کا منہ بند کرو گے کس کس کو سمجھاؤ گے دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تم پچھتاؤ گے آج یہ جن دیواروں کو تم اونچا کرتے جاتے ہو کل کو ان دیواروں میں خود گھٹ گھٹ کے مر جاؤ گے ماضی کے ہر ایک ورق پر سپنوں کی گلکاری ہے ہم سے ناطہ توڑنے والو کتنے نقش مٹاؤ گے ہاتھ چھڑا کے چل تو دیے ہو ...

    مزید پڑھیے

    اک برگ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ

    اک برگ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ میں پھر بھی جی رہا ہوں مرا حوصلہ بھی دیکھ ذرے کی شکل میں مجھے سمٹا ہوا نہ جان صحرا کے روپ میں مجھے پھیلا ہوا بھی دیکھ تو نے تو مشت خاک سمجھ کر اڑا دیا اب مجھ کو اپنی راہ میں بکھرا ہوا بھی دیکھ مانا کہ تیرا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ملنے کے بعد مجھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4