ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے جنوں کچھ سوا کر چلے
ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے جنوں کچھ سوا کر چلے خود تو جیسے کٹی زندگی کاٹ لی ہاں نئے دور کی ابتدا کر چلے زرد سورج کی مشعل بھی کجلا گئی چاند تاروں کو بھی نیند سی آ گئی اب کسی کو اگر روشنی چاہئے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا کر چلے حال اپنا ہر اک سے چھپاتے رہے زخم کھاتے رہے ...