Murtaza Barlas

مرتضیٰ برلاس

  • 1934

مرتضیٰ برلاس کی غزل

    جس کو دیکھو زرد چہرہ آنکھ پتھرائی ہوئی

    جس کو دیکھو زرد چہرہ آنکھ پتھرائی ہوئی خوب اے عیسیٰ نفس تیری مسیحائی ہوئی کرب کی اک مشترک تحریر ہر چہرے پہ تھی اجنبی لوگوں سے پل بھر میں شناسائی ہوئی بے اصولی مصلحت کے نام سے پھولی پھلی ہم اصولوں پر لگے جینے تو رسوائی ہوئی کر رہا ہوں حال میں گزرے ہوئے لمحے تلاش گتھیاں سلجھا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کو دیکھیے ذرا آنکھیں تو کھولیے

    دنیا کو دیکھیے ذرا آنکھیں تو کھولیے سورج چڑھا ہے سر پہ بڑی دیر سو لیے ساری مسرتیں تری خوشیوں پہ وار دیں جتنے بھی غم ملے ترے غم میں سمو لیے ہم کو نہ جانے کیا ہوا پھولوں کو دیکھ کر ہاتھوں میں ہم نے جان کے کانٹے چبھو لیے مجبوریاں کہیں کہ اسے سادگی کہیں جس نے بھی ہنس کے بات کی ہم ...

    مزید پڑھیے

    سارے ظالم اگر صف بہ صف ہو گئے

    سارے ظالم اگر صف بہ صف ہو گئے ہم تہی دست بھی سر بکف ہو گئے وہ جو کچھ بھی نہ تھے اب ہیں سب کچھ وہی در بدر سارے اہل شرف ہو گئے کوزہ گر کا کمال ہنر کیا ہوا جب نہ کوزہ بنے ہم خذف ہو گئے یہ تری یاد کے اشک تھے اس لیے آنکھ میں مثل در صدف ہو گئے منسلک اک خوشی سے ہوئی ہر خوشی سارے غم ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    جیتے جی میرے ہر اک مجھ پہ ہی تنقید کرے

    جیتے جی میرے ہر اک مجھ پہ ہی تنقید کرے اور مر جاؤں تو دنیا مری تقلید کرے میں تو کہتا ہوں کہ تم ابر کرم ہو لیکن کاش صحرا مرے الفاظ کی تائید کرے جب ہر اک بات نہاں تشنۂ تکمیل رہے پھر کرے کوئی تو کیا جرأت تمہید کرے پہلے ہر شخص گریبان میں اپنے جھانکے پھر بصد شوق کسی اور پہ تنقید ...

    مزید پڑھیے

    نام بھی اچھا سا تھا چہرہ بھی تھا مہتاب سا

    نام بھی اچھا سا تھا چہرہ بھی تھا مہتاب سا ہاں ہمیں کچھ یاد ہوتا ہے مگر کچھ خواب سا یہ مرے سینے میں دل رکھا ہے یا کوئی چکور چاندنی راتوں میں کیوں رہتا ہوں میں بیتاب سا ہو گیا کس ذکر سے یہ مرتعش سارا وجود تار ساز دل پہ آخر کیا لگا مضراب سا کچھ کتابیں اور قلم کاغذ کے کچھ پرزوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    بات بے شک نہ کریں آپ ادھر دیکھیں تو

    بات بے شک نہ کریں آپ ادھر دیکھیں تو لوگ کس حال میں ہیں ایک نظر دیکھیں تو خیر ہونا تو وہی ہے جو خدا چاہے گا پھر بھی کر سکتے ہیں ہم لوگ جو کر دیکھیں تو تم نے دیکھا ہے وہی خواب جو میں نے دیکھا اس کو کہتے ہیں محبت کا اثر دیکھیں تو آپ عشرت کدۂ غیر کی راکھی کر کے آئیں اور آ کے کبھی اپنا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے

    ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے کہ جیسے رنگ ہی لے آئے گا لہو اپنا وفا پہ اپنی ہمیں اعتماد کتنا ہے یہ جانتا ہے کہ وعدہ شکن ہے وہ پھر بھی دل اس کے وعدۂ فردا پہ شاد کتنا ہے وہ جس نے مجھ کو فراموش کر دیا یکسر وہ شخص مجھ کو مگر اب بھی یاد کتنا ہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے

    اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے گر حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے اب شدت غم سے مرا دم گھٹنے لگا ہے تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے فردا کے دھندلکوں میں مجھے ڈھونڈنے والو ماضی کے دریچوں سے صدا ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی

    ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی تو پھر نبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں جو ہم نے دیکھی ہے آسودگی اگر ہے یہی ہمیں بکھرنا تو ہے کل نہیں تو آج سہی ہمارا کیا ہے تمہاری خوشی اگر ہے یہی ابھی نہ جانے ہمیں کتنے دوست کھونے پڑیں ہماری باتوں میں بے ساختگی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4