صدا یہ کس کی ہے جو دور سے بلائے مجھے

صدا یہ کس کی ہے جو دور سے بلائے مجھے
قریب جاؤں تو کچھ بھی نظر نہ آئے مجھے


میں بجھتے بجھتے دھوئیں کی لکیر چھوڑوں گا
یہ باد تند ذرا سوچ کر بجھائے مجھے


غروب کے نہیں آثار یہ تو پھر کیا ہیں
کہ جسم سے بڑے لگتے ہیں اب تو سائے مجھے


جلا ہو دھوپ میں اور خال و خد نہ بگڑے ہوں
بھرے جہاں میں وہ اک شخص تو دکھائے مجھے


کسی کے لمس سے کندن میں ہو تو سکتا ہوں
مگر یہ شرط کوئی ہاتھ تو لگائے مجھے