مرا دل بھی معمہ ہو گیا ہے
مرا دل بھی معمہ ہو گیا ہے
بھری محفل میں تنہا ہو گیا ہے
بڑا آسان جینا ہو گیا ہے
گراں پھر لمحہ لمحہ ہو گیا ہے
جو روتا تھا مرے زخموں پہ یارو
وہ آئینہ بھی اندھا ہو گیا ہے
نظر آتا نہیں انسان کوئی
ہمارا شہر صحرا ہو گیا ہے
کوئی بھی شے قرینے سے نہیں ہے
عجب دل کا گھروندا ہو گیا ہے
مرا گھر منتظر ہے روشنی کا
زمانے میں سویرا ہو گیا ہے
کہاں ہے غیر جانب دار کوئی
عدو سارا زمانہ ہو گیا ہے
شب غم مختصر ہونے لگی ہے
مریض ہجر چنگا ہو گیا ہے
فلک پر آج کل ہی ایسے ویسے
غروب اپنا ستارا ہو گیا ہے
جسے میں قتل کر آیا تھا سیفیؔ
وہی اب مجھ میں زندہ ہو گیا ہے