موسموں میں ہوئی ہے سازش پھر

موسموں میں ہوئی ہے سازش پھر
دھوپ میں ہو رہی ہے بارش پھر


اب تو باقی ہے سمت ممنوعہ
میرے تلووں میں جاگی خارش پھر


ہر طرف ہے عجیب تاراجی
دل میں آئی سپاہ دانش پھر


رنگ و روغن بھی مسکرانے لگے
خوش بہت ہے مری رہائش پھر


آڑی ترچھی لکیریں روشن ہوں
کچھ تو ہو صورت نگارش پھر


دیکھیے کس طرف کو جاتا ہے
ہے قلندر کی آزمائش پھر


زہر آلود خوشبوئیں ہیں منیرؔ
کی ہوا نے گلوں سے سازش پھر