طلب سے بھی کچھ اور زیادہ ملا
طلب سے بھی کچھ اور زیادہ ملا
بدن پر غموں کا لبادہ ملا
مجھے ہر جگہ سرفرازی ملی
کہ غم کا مجھے شاہزادہ ملا
بہت سادگی اس کے بچپن میں تھی
جوانی کا قصہ بھی سادہ ملا
کہ بے ساز و سامان تھا اس لیے
مجھے ہر سفر بے ارادہ ملا
زمیں پر تو سو آسماں اوڑھ لے
مکاں تجھ کو کتنا کشادہ ملا
رگ سنگ جب بھی نچوڑی گئی
گلوں کا لہو تازہ تازہ ملا
ہنسی کو ترستے ہوئے لب ملے
ہر اک شکل پر غم کا غازہ ملا