شب میں سورج کو ہم نکالیں گے

شب میں سورج کو ہم نکالیں گے
پتھروں میں بھی جان ڈالیں گے


ہم سفر کر چکے خلاؤں میں
اب سمندر کو بھی کھنگالیں گے


یہ پرندے ہیں میرے دل کی طرح
جی جہاں چاہا گھر بنا لیں گے


آنے دیں گے نہ جسم و جاں میں خزاں
زخم ہر دم ہرا بھرا لیں گے


درد و غم کے سوا بھلا سیفیؔ
ہم فقیروں سے لوگ کیا لیں گے