muneer saifi

منیر سیفی

منیر سیفی کی غزل

    وہی مناظر وہی مسافر وہی سدا کا جادہ تھا

    وہی مناظر وہی مسافر وہی سدا کا جادہ تھا جب افتاد پڑی تھی مجھ سے میں ہی دور افتادہ تھا ایک امید و بیم کے عالم میں بستی دم سادھے تھی اور ہوا کے تیور تھے پانی کا اور ارادہ تھا سورج بھی پہنے تھے میں نے اور تارے بھی اوڑھے تھے دن میں اور مرا پیراہن شب میں اور لبادہ تھا اس نے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    ہر گنبد بے در میں بھی اک در ہے کہ تو ہے

    ہر گنبد بے در میں بھی اک در ہے کہ تو ہے پھر مجھ میں کوئی اور نواگر ہے کہ تو ہے اک اور ہی عالم ہے ورائے‌‌ خس و خاشاک اک اور ہی منظر پس منظر ہے کہ تو ہے تا حد نظر ایک ندی ہے کہ ہوں میں بھی تا‌‌ حد خیال ایک سمندر ہے کہ تو ہے پیوست ہیں مٹی میں مرے پاؤں کہ میں ہوں افلاک کے سینے پہ مرا ...

    مزید پڑھیے

    ایک سے جذبے خون میں سرخی ایک ہی تھی

    ایک سے جذبے خون میں سرخی ایک ہی تھی دیس جدا تھے پیار کرنسی ایک ہی تھی اس پر بھی بس لیلیٰ لیلیٰ لکھا تھا اس کے پاس اگرچہ تختی ایک ہی تھی گھوڑے بنانا چھوڑ دیے کمہاروں نے گاؤں میں ڈوبنے والی لڑکی ایک ہی تھی حصہ بخرے بانٹ لئے ہیں لوگوں نے بے چارے کیا کرتے دھرتی ایک ہی تھی پھر کوئی ...

    مزید پڑھیے

    جب نہ گنبد نہ صدا رقص میں ہو

    جب نہ گنبد نہ صدا رقص میں ہو کیا نہ ہو رقص میں کیا رقص میں ہو عکس ہو اپنی دھمالیں اوڑھے آئنہ اپنی جگہ رقص میں ہو تالیاں پیٹ رہے ہوں پتے اور پیڑوں پہ ہوا رقص میں ہو ڈوبنے والے ہوں ساحل ساحل موج در موج گھڑا رقص میں ہو رات بھر آیتیں گاتے رہیے کیا خبر کوئی دعا رقص میں ہو کیا خبر ...

    مزید پڑھیے

    کس منظر میں کیسے منظر اگ آتے ہیں

    کس منظر میں کیسے منظر اگ آتے ہیں خواب اگانا چاہوں پتھر اگ آتے ہیں یہ نا ممکن ہے پھر بھی لگتا ہے جیسے قید میں وقت سے پہلے ہی پر اگ آتے ہیں موسم کا اعجاز ہے یا جادو ہے کوئی راتوں رات درختوں پر گھر اگ آتے ہیں پورے چاند کی رات سمندر نرم ہوائیں سطح آب پہ کیا کیا پیکر اگ آتے ہیں عشق ...

    مزید پڑھیے

    نڈر بھی ذات میں اپنی ہوں خود سے خائف بھی

    نڈر بھی ذات میں اپنی ہوں خود سے خائف بھی لہو میں میرے حرا بھی ہے ارض طائف بھی یہی نہیں کہ فرشتہ نہ چھت پہ اترا کوئی پہنچ سکے نہ فلک تک مرے وظائف بھی پکارتی ہے مجھے تیرے نام سے دنیا بدل کے رکھ دیئے تو نے مرے کوائف بھی بھرم عزیز تھا تیرا سو تیری جانب سے خرید لایا ہوں اپنے لیے ...

    مزید پڑھیے

    میں نہیں تھا رتجگوں میں کون تھا میرے سوا

    میں نہیں تھا رتجگوں میں کون تھا میرے سوا ساتھ میرے وحشتوں میں کون تھا میرے سوا اک زمانے میں ہوا کرتا ہے گوتم ایک ہی دوسرا پھر جنگلوں میں کون تھا میرے سوا ہات وہ کس کے تھے جو میرے گلے تک آ گئے میرے جیسا دوستوں میں کون تھا میرے سوا تم تو خود اپنی تجلی ہی میں تھے کھوئے ہوئے عکس در ...

    مزید پڑھیے

    آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے

    آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے اپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑا مجھے مجھ سے تمہارے عکس کو کرتا تھا بد گماں آئینہ درمیاں سے ہٹانا پڑا مجھے پھر اس کے بعد جرأت گریہ نہیں ہوئی اک اشک خاک سے جو اٹھانا پڑا مجھے پھر یوں ہوا کہ جھوٹ کی عادت سی ہو گئی پھر یوں ہوا کہ سچ کو چھپانا پڑا مجھے پانی ...

    مزید پڑھیے

    ایک تماشا اور دکھایا جا سکتا تھا

    ایک تماشا اور دکھایا جا سکتا تھا مجھ کو زندہ بھی دفنایا جا سکتا تھا چڑیوں کی آواز نہ کانوں تک آ سکتی گھر میں اتنا شور مچایا جا سکتا تھا جب تک برف پگھلتی یا برکھا رت آتی دریا اور بھی کام میں لایا جا سکتا تھا تم نے اپنا رستہ خود روکا تھا ورنہ تم جب آنا چاہتے آیا جا سکتا تھا چھوٹی ...

    مزید پڑھیے

    روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے

    روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے اس نے مجھ کو لاکھوں انسانوں سے اچھا رکھا ہے تم روشن کر رکھو جتنے ہجر الاؤ ممکن ہوں میں نے بھی اپنی آنکھوں کے پیچھے دریا رکھا ہے آنکھ کہاں ہے ایک آفت گویا رکھی ہے چہرے پر دل کب ہے میرے پہلو میں ایک تماشا رکھا ہے جو مجھ میں کھل کر ہنستا اور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3