روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے
روح سلگتی رکھی ہے اور سینہ جلتا رکھا ہے
اس نے مجھ کو لاکھوں انسانوں سے اچھا رکھا ہے
تم روشن کر رکھو جتنے ہجر الاؤ ممکن ہوں
میں نے بھی اپنی آنکھوں کے پیچھے دریا رکھا ہے
آنکھ کہاں ہے ایک آفت گویا رکھی ہے چہرے پر
دل کب ہے میرے پہلو میں ایک تماشا رکھا ہے
جو مجھ میں کھل کر ہنستا اور ساون بھادوں روتا تھا
اس بچے کو میں نے اب تک خود میں زندہ رکھا ہے
جس دن میری دھرتی اپنی چادر مجھ پر ڈالے گی
بس اس دن کی خاطر میں نے خود کو زندہ رکھا ہے
خاک بسر پھرتی ہیں جس میں لیلائیں دن رات منیرؔ
میں نے اپنی زا میں ایک ایسا بھی صحرا رکھا ہے