کس منظر میں کیسے منظر اگ آتے ہیں

کس منظر میں کیسے منظر اگ آتے ہیں
خواب اگانا چاہوں پتھر اگ آتے ہیں


یہ نا ممکن ہے پھر بھی لگتا ہے جیسے
قید میں وقت سے پہلے ہی پر اگ آتے ہیں


موسم کا اعجاز ہے یا جادو ہے کوئی
راتوں رات درختوں پر گھر اگ آتے ہیں


پورے چاند کی رات سمندر نرم ہوائیں
سطح آب پہ کیا کیا پیکر اگ آتے ہیں


عشق میں قامت کا یوں دھیان رکھا جاتا ہے
گردن کٹ جاتی ہے تو سر اگ آتے ہیں


اس کے نام کا نقارا بجتے ہی سیفیؔ
چاروں جانب درد کے لشکر اگ آتے ہیں