وہی مناظر وہی مسافر وہی سدا کا جادہ تھا

وہی مناظر وہی مسافر وہی سدا کا جادہ تھا
جب افتاد پڑی تھی مجھ سے میں ہی دور افتادہ تھا


ایک امید و بیم کے عالم میں بستی دم سادھے تھی
اور ہوا کے تیور تھے پانی کا اور ارادہ تھا


سورج بھی پہنے تھے میں نے اور تارے بھی اوڑھے تھے
دن میں اور مرا پیراہن شب میں اور لبادہ تھا


اس نے مجھ کو دریا کر ڈالا یہ اس کی عظمت ہے
میں تو قطرے کی صورت بھی رہنے پر آمادہ تھا


گٹھڑی سر سے کیا اتری میں اپنی چال ہی بھول گیا
تن کر چلتا تھا میں جب تک سر پر بوجھ زیادہ تھا


پر اک روز مرا بیٹا میری مسند پر آ بیٹھا
جب تک میری ماں زندہ تھی میں گھر میں شہزادہ تھا


اب سیفیؔ کی باتوں میں وہ پہلے جیسی بات کہاں
شہر میں آنے سے پہلے یہ شخص نہایت سادہ تھا