muneer saifi

منیر سیفی

منیر سیفی کی غزل

    یوں تو کیا کیا لوگ چھپے تھے دروازوں کے پیچھے

    یوں تو کیا کیا لوگ چھپے تھے دروازوں کے پیچھے میں ہی بس اڑتا رہتا تھا آوازوں کے پیچھے خون کا اک قطرہ ورنہ پھر موت کا نشہ ہوگا پر ایسی شے کب ہوتی ہے پروازوں کے پیچھے وہ تو لوگ بنا دیتے ہیں پر اسرار فضا کو اکثر کوئی راز نہیں ہوتا رازوں کے پیچھے موسیقار کے بس میں کب ہے لے کو لو میں ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا تھا

    ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا تھا دیار شب کو خموشی سے پار کرنا تھا ہماری خاک کوئی چاندنی میں ڈال آئے ہمارا کام ستارے شکار کرنا تھا ہوئی تھی اس لیے تاخیر تم سے ملنے میں خود اپنا بھی تو مجھے انتظار کرنا تھا تمہارے واسطے کرنا تھا میں نے خود کو تلاش تمہارے واسطے میں نے فرار کرنا ...

    مزید پڑھیے

    ایسی بھی صورت حالات نہ سمجھی جائے

    ایسی بھی صورت حالات نہ سمجھی جائے میری پسپائی مری مات نہ سمجھی جائے یہ تو رستے مجھے لے آئے ہیں تیری جانب یہ ملاقات ملاقات نہ سمجھی جائے بعض اوقات میں نشے میں نہیں بھی ہوتا میری ہر بات مری بات نہ سمجھی جائے اب تو صحرا بھی مرے ساتھ سفر کرتے ہیں صرف وحشت ہی مرے ساتھ نہ سمجھی ...

    مزید پڑھیے

    جائز ہے اس کا قتل ہمارے حساب سے

    جائز ہے اس کا قتل ہمارے حساب سے جس نے محبتوں کو نکالا نصاب سے تنقید کر رہے ہیں کتاب حیات پر آگے نہ بڑھ سکے جو کبھی انتساب سے میں صاحب خبر بھی نظر بھی جنوں بھی تھا جب تک رہا تھا میرا تعلق کتاب سے اس وقت ایک سجدہ بڑے کام آ گیا میں جب گزر رہا تھا انا کے عذاب سے اک لمحے کا فراق ...

    مزید پڑھیے

    درد دیکھیں نہ اب دوا دیکھیں

    درد دیکھیں نہ اب دوا دیکھیں مرنے والوں کا حوصلہ دیکھیں کچھ نہیں عشق میں بعید میاں روشنی چھوئیں اور ہوا دیکھیں جب نہ دیکھا اسے تو کیا دیکھا دیکھ کر اس کو اور کیا دیکھیں جو نہ دیکھا تھا وہ بھی دیکھ لیا اب دکھاتا ہے کیا خدا دیکھیں ہم میں کوئی مشابہت بھی ہے آئیے مل کے آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    اتنے پر مغز ہیں دلائل کیا

    اتنے پر مغز ہیں دلائل کیا دل کو کر لو گے اپنے قائل کیا پھر وہی سر ہے اور وہی تیشہ عشق کیا عشق کے مسائل کیا روشنی روشنی پکارتے ہو روشنی کے نہیں مسائل کیا روز میدان جنگ بنتا ہوں مجھ میں آباد ہیں قبائل کیا کس قدر عرضیاں گزاری ہیں کبھی دیکھی ہے میری فائل کیا ہاتھ پھیلانا کوئی کم ...

    مزید پڑھیے

    آبلہ ہے کہ گھاؤ جو بھی ہے

    آبلہ ہے کہ گھاؤ جو بھی ہے سامنے میرے لاؤ جو بھی ہے چاک سے اب مجھے اتارو بھی میری صورت دکھاؤ جو بھی ہے جو نہیں اس کی کیا پریشانی خیر اس کی مناؤ جو بھی ہے رکھ دیا ہے تمہارے چگنے کو درد کی فاختاؤ جو بھی ہے ہم ترے در سے اب نہ اٹھیں گے تیرا ہم سے سبھاؤ جو بھی ہے دوست تو اپنے آپ بنتے ...

    مزید پڑھیے

    ایسی مشکل میں نہ جاں تھی پہلے

    ایسی مشکل میں نہ جاں تھی پہلے زیست کب اتنی گراں تھی پہلے آسماں تھا نہ زمیں تھی کوئی کائنات ایک دھواں تھی پہلے دھوپ بہروپ پگھلتا سونا چاندنی آب رواں تھی پہلے ایک مخصوص سماعت سب کی ایک مانوس زباں تھی پہلے قتل کے کب تھے یہ سارے ساماں ایک تیر ایک کماں تھی پہلے یہ جو بجلی سی چمک ...

    مزید پڑھیے

    لہو کا ذائقہ ہی جب زبان تک نہ گیا

    لہو کا ذائقہ ہی جب زبان تک نہ گیا تو کیا عجب ہے جو زخموں پہ دھیان تک نہ گیا وہ ایک وہم جو سرمایۂ فقیری تھا یقیں میں اس طرح بدلا گمان تک نہ گیا بدل گئی کہیں رستے میں کیمیا اس کی اٹھا غبار مگر آسمان تک نہ گیا انا پرست تھے ایسے بدن تو پھر ہے بدن ہمارا سایہ کبھی سائبان تک نہ گیا بتا ...

    مزید پڑھیے

    سونے والوں کو کوئی خواب دکھانے سے رہا

    سونے والوں کو کوئی خواب دکھانے سے رہا میں تہ خاک تو اب خاک اڑانے سے رہا کوئی دروازہ نہ حائل کوئی دہلیز رہی عشق صحرا میں رہا اور ٹھکانے سے رہا ڈوب جائیں تو کنارے پہ پہنچ سکتے ہیں اب سمندر تو ہمیں پار لگانے سے رہا ان دیوں ہی سے کسی طور گزارا کر لو اب میں کمرے میں ستاروں کو تو لانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3