Munawwar Hashmi

منور ہاشمی

منور ہاشمی کی غزل

    چشم آہو اور ہے اس کی کہانی اور ہے

    چشم آہو اور ہے اس کی کہانی اور ہے جس میں میں رہتا ہوں چشم آسانی اور ہے جس میں تو شامل تھا وہ کچھ اور تھا طرز حیات اب جو گزرے جا رہی ہے زندگانی اور ہے گھر کے اندر جو ہوا وہ واقعہ کچھ اور تھا اس نے جو سب کو سنائی وہ کہانی اور ہے آتش غم خانۂ دل میں بجھانے کے لئے اور رو لوں گا ابھی ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے حق میں کوئی انقلاب ہے کہ نہیں

    ہمارے حق میں کوئی انقلاب ہے کہ نہیں ہماری سمت کھلا دل کا باب ہے کہ نہیں وہ اک سوال تمنا جو بار بار ہوا اس اک سوال کا کوئی جواب ہے کہ نہیں ورق ورق پہ ترا نام جس میں لکھا ہے وفا و مہر کی وہ دل کتاب ہے کہ نہیں ترا گناہ بھی واعظ ثواب ہے لیکن ہمارے نیک عمل کا ثواب ہے کہ نہیں تمہارے ...

    مزید پڑھیے

    محنت کوشش اور وفا کے خوگر زندہ رہتے ہیں

    محنت کوشش اور وفا کے خوگر زندہ رہتے ہیں جن کو مرنا آ جاتا ہے اکثر زندہ رہتے ہیں فطرت کی وسعت ہے کتنی کون کہاں تک دیکھے گا آنکھیں مر جاتی ہیں لیکن منظر زندہ رہتے ہیں پتھر مارنے والے اک دن خود پتھر ہو جاتے ہیں راہ وفا میں جو سہتے ہیں پتھر زندہ رہتے ہیں حق کی خاطر پیش کریں جو اپنی ...

    مزید پڑھیے

    سر اٹھائے گی اگر رسم جفا میرے بعد

    سر اٹھائے گی اگر رسم جفا میرے بعد مجھ کو ڈھونڈے گا مرا دشت انا میرے بعد اپنی آواز کی صورت میں رہوں گا زندہ میرے پرچم کو اڑائے گی ہوا میرے بعد اپنے کوچے سے چلے جانے پہ مجبور نہ کر کس سے پوچھے گا کوئی تیرا پتہ میرے بعد اتنی امید تو ہے اپنے پسر سے مجھ کو میری تربت پہ جلائے گا دیا ...

    مزید پڑھیے

    جب زمانے میں فقط افسردگی رہ جائے گی

    جب زمانے میں فقط افسردگی رہ جائے گی میری آنکھوں میں کرن امید کی رہ جائے گی صبح دم آ جائے گا اس کا پیام معذرت جس کی خاطر آنکھ شب بھر جاگتی رہ جائے گی کھل رہے ہیں سوچ کے صحرا میں یادوں کے گلاب تو نہ ہوگا تو یہاں خوشبو تری رہ جائے گی وقت کی سرکش ہواؤ! جب دیا بجھ جائے گا صبح کی صورت ...

    مزید پڑھیے

    اور کوئی بھی نہیں اپنا سہارا باقی

    اور کوئی بھی نہیں اپنا سہارا باقی اب ہے سینے میں فقط درد تمہارا باقی قریۂ جاں بھی ہے اور دعوت دیدار بھی ہے آنکھ باقی نہیں لیکن ہے نظارہ باقی باقی آثار ہیں بس قہر خدا کے ہر سو کوئی طوفاں ہے نہ کشتی نہ کنارہ باقی اس کے آنے کی ہے موہوم سی امید ابھی آسماں پر ہے ابھی ایک ستارہ ...

    مزید پڑھیے

    لوٹ کر وہ آ نہیں سکتا کبھی سوچا نہیں

    لوٹ کر وہ آ نہیں سکتا کبھی سوچا نہیں اس لیے جاتے ہوئے میں نے اسے روکا نہیں حاصل احساس ہے اک عمر کی تشنہ لبی ابر کا ٹکڑا بھی کوئی شہر پر برسا نہیں اس طرف بھی انتہا اور اس طرف بھی انتہا وہ بھی کم ہنستا نہیں اور میں بھی کم ہنستا نہیں میرا ذوق شعر ہے ممنون اخلاص نظر کوئی فن پارہ مرا ...

    مزید پڑھیے

    سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے

    سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے اپنی پہچان مگر سب سے جدا رکھی ہے جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے ایسا ہوتا ہے کہ پتھر بھی پگھل جاتا ہے تو نے سینے میں مگر چیز یہ کیا رکھی ہے زخم خوردہ سہی افسردہ سہی اپنی جبیں جیسی بھی ہے تیری دہلیز پہ لا رکھی ...

    مزید پڑھیے

    روز گرے اک خواب عمارت ملبے میں دب جاؤں

    روز گرے اک خواب عمارت ملبے میں دب جاؤں صدیوں کی دیواریں پھاندوں لمحے میں دب جاؤں کبھی کبھی صحراؤں کو بھی بند کروں مٹھی میں اور کبھی اک ریت کے ادنیٰ ذرے میں دب جاؤں میں تو خود اک پیڑ گھنا ہوں یہ ہے کیسے ممکن چھوٹے موٹے پودوں کے میں سائے میں دب جاؤں ایسا بھی ہو جائے اکثر ویسا بھی ...

    مزید پڑھیے

    اک ایسا موڑ سر رہ گزر بھی آئے گا

    اک ایسا موڑ سر رہ گزر بھی آئے گا وفور خوف میں لطف سفر بھی آئے گا یہ اس کا شہر ہے اس کی مہک بتاتی ہے ذرا تلاش کرو اس کا گھر بھی آئے گا اسی یقین پر ہر ظلم سہتے رہتے ہیں کہ شاخ صبر پہ اک دن ثمر بھی آئے گا قریب منزل جاناں سرور دل کے ساتھ جنوں کی فتنہ طرازی سے ڈر بھی آئے گا کھلے رہیں گے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2