سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے
سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے
اپنی پہچان مگر سب سے جدا رکھی ہے
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
ایسا ہوتا ہے کہ پتھر بھی پگھل جاتا ہے
تو نے سینے میں مگر چیز یہ کیا رکھی ہے
زخم خوردہ سہی افسردہ سہی اپنی جبیں
جیسی بھی ہے تیری دہلیز پہ لا رکھی ہے
اس نے مجھ سے بھی تری ساری کہانی کہہ دی
جس نے تجھ کو مری ہر بات سنا رکھی ہے
میرے سینے میں منورؔ ہے اسی شوخ کا غم
جس کے سینے میں مرے غم کی دوا رکھی ہے