محنت کوشش اور وفا کے خوگر زندہ رہتے ہیں
محنت کوشش اور وفا کے خوگر زندہ رہتے ہیں
جن کو مرنا آ جاتا ہے اکثر زندہ رہتے ہیں
فطرت کی وسعت ہے کتنی کون کہاں تک دیکھے گا
آنکھیں مر جاتی ہیں لیکن منظر زندہ رہتے ہیں
پتھر مارنے والے اک دن خود پتھر ہو جاتے ہیں
راہ وفا میں جو سہتے ہیں پتھر زندہ رہتے ہیں
حق کی خاطر پیش کریں جو اپنی جان کا نذرانہ
زندہ رہنے والوں سے بھی بڑھ کر زندہ رہتے ہیں
اک دن پیدا کرتے ہیں بھونچال کی صورت جسموں میں
لاوے جذبوں کے سینے کے اندر زندہ رہتے ہیں
جن کے دم سے دھرتی روشن رشک فلک دکھلائی دے
ایسے انساں ایسے ماہ و اختر زندہ رہتے ہیں
ظلم کے سیل خوں میں اک دن ظالم بھی بہہ جاتا ہے
لشکر مر جاتا ہے اور بہتر زندہ رہتے ہیں
ایسے لوگوں کا مر جانا جینے سے بھی بہتر ہے
وہ جو لوگ منورؔ سب سے ڈر کر زندہ رہتے ہیں