روز گرے اک خواب عمارت ملبے میں دب جاؤں

روز گرے اک خواب عمارت ملبے میں دب جاؤں
صدیوں کی دیواریں پھاندوں لمحے میں دب جاؤں


کبھی کبھی صحراؤں کو بھی بند کروں مٹھی میں
اور کبھی اک ریت کے ادنیٰ ذرے میں دب جاؤں


میں تو خود اک پیڑ گھنا ہوں یہ ہے کیسے ممکن
چھوٹے موٹے پودوں کے میں سائے میں دب جاؤں


ایسا بھی ہو جائے اکثر ویسا بھی ہو جائے
سیلابوں کا رستہ روکوں قطرے میں دب جاؤں


میرے نام کا نون منورؔ اصل میں ایک معمہ
لاکھوں شرحوں میں ابھروں اک نکتے میں دب جاؤں