ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا
ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا نیند پوری نہ ہوئی خواب مکمل نہ ہوا شہر دل کا جو مکیں ہے وہ بچھڑتا کب ہے جس قدر دور گیا آنکھ سے اوجھل نہ ہوا آج بھی دل کی زمیں خشک رہی تشنہ رہی آج بھی مائل الطاف وہ بادل نہ ہوا روشنی چھن کے ترے رخ کی نہ مجھ تک پہنچے ایک دیوار ہوئی یہ کوئی آنچل نہ ...