Mukesh Indori

مکیش اندوری

مکیش اندوری کی غزل

    اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا

    اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا سویرے جیسے ہی آنکھیں کھلی سورج نظر آیا گیا متھرا بنارس اور کعبہ ہر جگہ لیکن ملا دل کو سکوں جب لوٹ کر میں اپنے گھر آیا پڑی ہے مار جب سے وقت کی ڈرنے لگا ہوں میں چڑھا تھا جو جوانی کا نشہ پل میں اتر آیا کئی کانٹے بچھائے دوستوں نے راہ میں ...

    مزید پڑھیے

    لذت درد جگر دوست بڑھا دیتا ہے

    لذت درد جگر دوست بڑھا دیتا ہے زخم رستا ہے تو کچھ اور مزہ دیتا ہے میرے زخموں پہ نمک روز چھڑک دیتا ہے جانے کس جرم کی وہ مجھ کو سزا دیتا ہے تلخ باتوں سے مرے دل کو دکھاتا ہے روز میرا ہو کے مرے زخموں کو ہوا دیتا ہے رنگ بیٹا بھی بدل لیتا ہے گرگٹ کی طرح وقت پڑنے پہ ہمیشہ وہ دغا دیتا ...

    مزید پڑھیے

    کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا

    کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا زمانہ ہم سے ہماری خوشی بھی چھینے گا سہارا کون غریبوں کو دوست دیتا ہے غریب کی تو کوئی جھونپڑی بھی چھینے گا اسی کے دم سے ہے قائم نظام سانسوں کا یہ زندگی ہے اسی کی کبھی بھی چھینے گا یہ بات سن کے تعجب سا ہو رہا ہے ہمیں کبھی کسی کی کوئی زندگی بھی ...

    مزید پڑھیے

    بندہ پرور آپ کی تو زندگی آباد ہے

    بندہ پرور آپ کی تو زندگی آباد ہے آپ کو اس سے غرض کیا گر کوئی برباد ہے ہے اجازت آپ تو مشک ستم فرمائیے ہم غریبوں کا کلیجہ با خدا فولاد ہے اپنا اپنا ہے مقدر اپنا اپنا ہے نصیب ہے کوئی آباد دنیا میں کوئی برباد ہے خون انساں کا بہاتے ہیں جو پانی کی طرح ایسے لوگوں کی بدولت گلستاں برباد ...

    مزید پڑھیے

    سکوں پرور نگاہوں کے سہارے چھین لیتی ہے (ردیف .. ن)

    سکوں پرور نگاہوں کے سہارے چھین لیتی ہے سونامی جب بھی آتی ہے کنارے چھین لیتی ہے ہنسی بھی چھین لیتی ہے خوشی بھی چھین جاتی ہے بگڑ جاتی ہے قسمت تو ستارے چھین لیتی ہے مصیبت جب بھی آتی ہے تو آنسو لے کے آتی ہے لبوں سے مسکراہٹ کے نظارے چھین لیتی ہے کوئی ہوتا نہیں ہے پوچھنے والا یہ قسمت ...

    مزید پڑھیے

    مسکراتے ہوئے چہرے سے وہ منظر نکلا

    مسکراتے ہوئے چہرے سے وہ منظر نکلا جیب جب اس کی ٹٹولی میں نے خنجر نکلا چین سے قبر میں بھی رہنے نہیں دیتا ہے اور کوئی نہیں وہ میرا مجاور نکلا بانٹ دیتا ہے وہ جھولی میں بھری سب خوشیاں ہم نے سمجھا جسے قطرہ وہ سمندر نکلا اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے دنیا کے غم دل میری ماں کا سمندر سے ...

    مزید پڑھیے

    جرم وفا کی خوب سزا دے گیا مجھے

    جرم وفا کی خوب سزا دے گیا مجھے اک لمبی زندگی کی دعا دے گیا مجھے زخموں پہ میرے اس نے نمک تک چھڑک دیا درد جگر کی خوب دوا دے گیا مجھے آنکھوں میں اشک میری وہ بھر کر چلا گیا میری وفا کا خوب صلہ دے گیا مجھے اس نے سکون کب مجھے بخشا ہے آج تک بھولی تسلیوں کا نشہ دے گیا مجھے جس کو بھی دوست ...

    مزید پڑھیے

    اپنی قسمت کی لکیروں کو اشارہ نہ ملا

    اپنی قسمت کی لکیروں کو اشارہ نہ ملا کوئی جگنو کوئی موتی کوئی تارا نہ ملا جن کا بچپن مری بانہوں میں ہی گزرا تھا کبھی اس بڑھاپے میں مجھے ان کا سہارا نہ ملا غم کے مارے تو ہزاروں ہی زمانے میں ملے میرے جیسا کوئی تقدیر کا مارا نہ ملا گھوم آئے ہیں جہاں سارا مگر آج تلک آپ کے جیسا ہنسی ...

    مزید پڑھیے