اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا
اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا
سویرے جیسے ہی آنکھیں کھلی سورج نظر آیا
گیا متھرا بنارس اور کعبہ ہر جگہ لیکن
ملا دل کو سکوں جب لوٹ کر میں اپنے گھر آیا
پڑی ہے مار جب سے وقت کی ڈرنے لگا ہوں میں
چڑھا تھا جو جوانی کا نشہ پل میں اتر آیا
کئی کانٹے بچھائے دوستوں نے راہ میں میری
انہیں چن کر انہیں راہوں سے میں ثابت گزر آیا
اکیلا لڑ رہا ہوں زندگی کی جنگ بچپن سے
بلا کی بھیڑ ہے کوئی نہیں اپنا نظر آیا
گھروں میں قید ہو کر رہ گئی ہے زندگی سب کی
زمانے کی فضا میں دوست کیسا یہ اثر آیا
زمانے والے تو کہتے رہیں گے کہنے دو ان کو
ہمیشہ مارے ہیں پتھر نظر جو بھی شجر آیا
دعاؤں کا اثر ہے میرے پرکھوں کی یہ اندوریؔ
ہمیشہ دشمنوں کے گھر میں ان کے پر کتر آیا