اپنی قسمت کی لکیروں کو اشارہ نہ ملا
اپنی قسمت کی لکیروں کو اشارہ نہ ملا
کوئی جگنو کوئی موتی کوئی تارا نہ ملا
جن کا بچپن مری بانہوں میں ہی گزرا تھا کبھی
اس بڑھاپے میں مجھے ان کا سہارا نہ ملا
غم کے مارے تو ہزاروں ہی زمانے میں ملے
میرے جیسا کوئی تقدیر کا مارا نہ ملا
گھوم آئے ہیں جہاں سارا مگر آج تلک
آپ کے جیسا ہنسی کوئی دوبارہ نہ ملا
اپنی پلکوں کو بچھایا تری راہوں میں مگر
تیری آمد کا کوئی دل کو اشارا نہ ملا
مجھ کو دنیا نے تو نفرت کے سوا کچھ نہ دیا
مر ہی جاؤں گا اگر پیار تمہارا نہ ملا
جو سفینے کو کنارے سے لگا دیتا مرے
ہائے قسمت مجھے ایسا کوئی دھارا نہ ملا
ہے غموں کا وہ بھنور جس میں پھنسا ہوں اے مکیشؔ
زندگی کو مری خوشیوں کا کنارا نہ ملا