جرم وفا کی خوب سزا دے گیا مجھے

جرم وفا کی خوب سزا دے گیا مجھے
اک لمبی زندگی کی دعا دے گیا مجھے


زخموں پہ میرے اس نے نمک تک چھڑک دیا
درد جگر کی خوب دوا دے گیا مجھے


آنکھوں میں اشک میری وہ بھر کر چلا گیا
میری وفا کا خوب صلہ دے گیا مجھے


اس نے سکون کب مجھے بخشا ہے آج تک
بھولی تسلیوں کا نشہ دے گیا مجھے


جس کو بھی دوست میں نے شریک سفر کیا
ہر اک قدم پہ وہ ہی دغا دے گیا مجھے


اے دوست راہ چلتے ملا جو فقیر آج
وہ میری زندگی کا پتا دے گیا مجھے


آنکھوں میں اشک سینے میں رہنے لگا تھا درد
سن لی خدا نے آج قضا دے گیا مجھے


میں نے حیات جس کی سنواری تھی اے مکیش
وہ ہی غموں کی گرم ہوا دے گیا مجھے