بندہ پرور آپ کی تو زندگی آباد ہے
بندہ پرور آپ کی تو زندگی آباد ہے
آپ کو اس سے غرض کیا گر کوئی برباد ہے
ہے اجازت آپ تو مشک ستم فرمائیے
ہم غریبوں کا کلیجہ با خدا فولاد ہے
اپنا اپنا ہے مقدر اپنا اپنا ہے نصیب
ہے کوئی آباد دنیا میں کوئی برباد ہے
خون انساں کا بہاتے ہیں جو پانی کی طرح
ایسے لوگوں کی بدولت گلستاں برباد ہے
کس قدر مشکل ہے کھل کر سانس لینا بھی یہاں
صرف کہنے کے لیے اپنا وطن آزاد ہے
نوجواں ہاتھوں میں ہے اس ملک کی تقدیر اب
نوجواں ہاتھوں کے دم سے ملک یہ آباد ہے
تتلیوں کے پیچھے پیچھے دوڑنا وہ ہر طرف
آج تک ہم کو لڑکپن کا زمانہ یاد ہے
کس قدر رنگی زمانہ تھا وہ بچپن کا مکیشؔ
کچھ تمہیں بھی یاد ہوگا کچھ مجھے بھی یاد ہے