Mukesh Indori

مکیش اندوری

مکیش اندوری کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا

    اندھیروں کی حکومت کو مٹا کر اپنے گھر آیا سویرے جیسے ہی آنکھیں کھلی سورج نظر آیا گیا متھرا بنارس اور کعبہ ہر جگہ لیکن ملا دل کو سکوں جب لوٹ کر میں اپنے گھر آیا پڑی ہے مار جب سے وقت کی ڈرنے لگا ہوں میں چڑھا تھا جو جوانی کا نشہ پل میں اتر آیا کئی کانٹے بچھائے دوستوں نے راہ میں ...

    مزید پڑھیے

    لذت درد جگر دوست بڑھا دیتا ہے

    لذت درد جگر دوست بڑھا دیتا ہے زخم رستا ہے تو کچھ اور مزہ دیتا ہے میرے زخموں پہ نمک روز چھڑک دیتا ہے جانے کس جرم کی وہ مجھ کو سزا دیتا ہے تلخ باتوں سے مرے دل کو دکھاتا ہے روز میرا ہو کے مرے زخموں کو ہوا دیتا ہے رنگ بیٹا بھی بدل لیتا ہے گرگٹ کی طرح وقت پڑنے پہ ہمیشہ وہ دغا دیتا ...

    مزید پڑھیے

    کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا

    کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا زمانہ ہم سے ہماری خوشی بھی چھینے گا سہارا کون غریبوں کو دوست دیتا ہے غریب کی تو کوئی جھونپڑی بھی چھینے گا اسی کے دم سے ہے قائم نظام سانسوں کا یہ زندگی ہے اسی کی کبھی بھی چھینے گا یہ بات سن کے تعجب سا ہو رہا ہے ہمیں کبھی کسی کی کوئی زندگی بھی ...

    مزید پڑھیے

    بندہ پرور آپ کی تو زندگی آباد ہے

    بندہ پرور آپ کی تو زندگی آباد ہے آپ کو اس سے غرض کیا گر کوئی برباد ہے ہے اجازت آپ تو مشک ستم فرمائیے ہم غریبوں کا کلیجہ با خدا فولاد ہے اپنا اپنا ہے مقدر اپنا اپنا ہے نصیب ہے کوئی آباد دنیا میں کوئی برباد ہے خون انساں کا بہاتے ہیں جو پانی کی طرح ایسے لوگوں کی بدولت گلستاں برباد ...

    مزید پڑھیے

    سکوں پرور نگاہوں کے سہارے چھین لیتی ہے (ردیف .. ن)

    سکوں پرور نگاہوں کے سہارے چھین لیتی ہے سونامی جب بھی آتی ہے کنارے چھین لیتی ہے ہنسی بھی چھین لیتی ہے خوشی بھی چھین جاتی ہے بگڑ جاتی ہے قسمت تو ستارے چھین لیتی ہے مصیبت جب بھی آتی ہے تو آنسو لے کے آتی ہے لبوں سے مسکراہٹ کے نظارے چھین لیتی ہے کوئی ہوتا نہیں ہے پوچھنے والا یہ قسمت ...

    مزید پڑھیے

تمام