موسم ہجر کی دل سوز نشانی دے گا
موسم ہجر کی دل سوز نشانی دے گا
عشق کا درد ہی عنوان کہانی دے گا
سنگ بے مایہ ہے شک اور یقیں ہے گوہر
وقت تقریر یہی شعلہ بیانی دے گا
کھل نہ جائے کہیں مکتوب سے راز پنہاں
جب وہ دے گا کوئی پیغام زبانی دے گا
نفس امارہ کو قوت سے کچل دے اپنی
ورنہ تکلیف تجھے عہد جوانی دے گا
سیکھ لے اس کو برتنے کا سلیقہ ساحلؔ
لفظ بے جان سہی حسن معانی دے گا