الم کا بوجھ اٹھائے سفر میں رہتا ہے

الم کا بوجھ اٹھائے سفر میں رہتا ہے
جو بد نصیب مری چشم تر میں رہتا ہے


وفا کی بھیک کوئی زر پرست کیا دے گا
کثیر فائدہ اس کی نظر میں رہتا ہے


تلاش راحت دنیا سے کیا غرض مجھ کو
امین غم ہوں یہی میرے گھر میں رہتا ہے


ملی مجھے اسی گردش میں عزم کی دولت
سفینہ میرا ہمیشہ بھنور میں رہتا ہے


میں جانتا ہوں کہ انجام زندگی کیا ہے
حریص الجھا ہوا مال و زر میں رہتا ہے


منافقت کے عمل میں کمال ہے اتنا
وہ کچھ نہ ہو کے بھی اکثر خبر میں رہتا ہے


صداقتوں سے مزین خیال ہے ساحلؔ
مشاہدہ ترے عرض ہنر میں رہتا ہے