جبین دل پہ ندامت کا داغ رہتا ہے
جبین دل پہ ندامت کا داغ رہتا ہے
فلک پہ اس کا ہمیشہ دماغ رہتا ہے
گل و ثمر سے لدا ہے ہر اک شجر لیکن
گیا ہے کون کہ مغموم باغ رہتا ہے
ترس رہا ہے اجالے کو خون سے جس کے
حسین قصر میں روشن چراغ رہتا ہے
انا کے خول سے باہر کبھی نہیں آتا
وہ جس کا علم سے خالی ایاغ رہتا ہے
جو کسب رزق میں نعمت کا پا گیا مفہوم
اسی امیر کا دل بھی فراغ رہتا ہے
فریب و مکر کی تشریح مت بتا مجھ کو
مرے شجر کے نشیمن میں زاغ رہتا ہے
ہے انکشاف حقیقت ہی فطرت ساحلؔ
عجیب شخص ہے محو سراغ رہتا ہے