یوں مکافات عمل سب کچھ اٹھا کر لے گیا
یوں مکافات عمل سب کچھ اٹھا کر لے گیا
سر پھرا سیلاب بستی کو بہا کر لے گیا
سایۂ رحمت سروں پہ ان کے رہتا ہے مدام
جب بھی کوئی اپنے دشمن کو منا کر لے گیا
جب کھلا باب ہدایت عشق بزم نور میں
وادیٔ ظلمت سے عاصی کو اٹھا کر لے گیا
سوز باطن سے میں رہتا ہوں مسلسل مضطرب
خوف محشر نیند بھی میری اڑا کر لے گیا
لاپتہ ہیں جانے والے یوں فرشتہ موت کا
ان کو ہر نقش قدم اپنا مٹا کر لے گیا
مل گئی بار تعیش سے مجھے ساحلؔ نجات
مال و زر رہزن مرا سارا چرا کر لے گیا