Mohammad Ameenuddin

محمد امین الدین

ہم عصر پاکستانی افسانہ نگاروں میں ممتاز۔ عام سماجی موضوعات پر بے پناہ تخلیقی انداز کی کہانیاں لکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں

Prominent among the contemporary fiction writers of Pakistan

محمد امین الدین کی رباعی

    ساٹن پر پڑی سلوٹیں

    میں ایک برس سے زیادہ ان کے ساتھ گزارنے کے باوجود یہ نہ جان سکا کہ وہ کینسر میں مبتلا ہیں۔ اگر مَیں زبردستی انہیں ہسپتال نہ لاتا تو اب بھی نہ جان پاتا۔ نرس اور وارڈ بوائے انہیں آئی سی یو میں شفٹ کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ نیم خوابیدہ حالت میں انہوں نے میری طرف دیکھا اور دھیرے سے ...

    مزید پڑھیے

    ریلوے کراسنگ

    سرخ بتی روشن ہوتے ہی بڑی گاڑیاں رکنا شروع ہوگئیں۔ موٹر سائیکل سوار جلدی جلدی گزرنے لگے۔ فرنیچر سے لدی سوزوکی والے نے نکلنے کی کوشش کی، مگر لوہے اور لکڑی سے بنی ہوئی سرخ اور سفید دھاری دار علامتی رکاوٹ تیزی کے ساتھ بلندی سے زمین کی طرف آنے لگی۔ ڈرائیورنے بریک لگائے اوربڑبڑایا، ...

    مزید پڑھیے

    تماشا گاہ

    سوال سے گریز، امکانات کا راستہ بند کرنے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر طوفان کے ٹل جانے کی امید کرنے والی قوم کی سرزمین پر جنم لینے والی اس کہانی کے دو کردا رہیں۔ یہ ایک دوسرے کو صرف ایک حوالے سے جانتے ہیں۔ مگر کبھی ملے نہیں ایک ملک کے بھی نہیں۔ اور مذہباً بھی الگ الگ ہیں۔ ...

    مزید پڑھیے

    مدیون کا نسیان

    مدیون سیڑھیاں چڑھتے ہوے اچانک رک گیا۔ گردن جھکا کر دیکھا، ایڑیوں کے پیچھے اور پنجے کے آگے قدمچے گہری کھائی میں اترتے اور آسمان میں گم ہوتے ہوے محسوس ہورہے تھے۔ مگر دوسرے ہی لمحے کھائی میں اترنے اور آسمان میں گم ہونے کا خوفناک احساس جاتا رہا۔ سیڑھیاں بس اتنی ہی تھیں جنہیں شمار ...

    مزید پڑھیے

    ترنم ہاؤس

    افسانہ لکھنے کے لیے کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات ہی بہت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ترنم ہاؤس ایل پندرہ سو تینتالیس میں رہنے والے پچاس سالہ نواب الہ آبادی، ان کی انچاس سالہ بیوی ترنم جہاں ، دو بیٹے سہراب ، مہتاب اور بیٹی خانم جہاں کا یہ افسانہ جس میں مصنف کو کہانی گھڑنی نہیں پڑی، بلکہ وہ تو ...

    مزید پڑھیے

    ایک اور عذاب

    مندرا پریس کلب کی فٹ پاتھ پر بیٹھی خود کو ننگا کرنے کے لیے بے قرار تھی، تاکہ زندگی کی دُہر ی اذیت سے چھٹکارا مل سکے۔ وہ مسلسل بیس برس سے زبان کی گوری چمڑی سے چپکا ہوا سچ اگل دینا چاہتی تھی۔ وقت بھی کیسے کیسے پینترے بدلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ اپنے گورے رنگ سے بہت محبت کرتی تھی۔ ...

    مزید پڑھیے

    گڈو

    میں نے دروازے پر پڑے تالے میں چابی گھمائی۔ تالا ہلکی سی جنبش سے کھل گیا۔ لوہے کے دروازے کو میں نے اندر کی طرف دھکیلا۔ دروازہ کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ سامنے ایک تنگ سی تقریباً چار فٹ چوڑی گلی ہے۔ فرش سیمنٹ کا اور جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ہے، جس کی وجہ ...

    مزید پڑھیے

    آتش فشاں پر بنا گھر

    اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔ ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا کر۔ تجھے سمجھ میں نہیں آتا ...

    مزید پڑھیے

    مایا جال

    قلعہ نما سنگلاخ دیواروں کے پیچھے کی دُنیا سے آنی والی خبرسن کر اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی۔ دیوار یں قہقہہ لگاتی اور سرسراتی ہوئی بلند سے بلند تر ہونے لگیں۔ سیلن زدہ ماحول میں اس کا دم گُھٹنے لگا، آنکھیں پتھرا گئیں اور آنسو درد کی پاتال میں گم ہوگئے۔ اس کا جسم کانپ اٹھا۔ مئی کی ...

    مزید پڑھیے

    بس اتنا ضروری ہے

    کچھ دنوں سے جب میں بیدار ہوتی ہوں تو میرا ہاتھ بے ساختہ دوسرے تکیے کو چھونے لگتا ہے۔ میری طرح خالی پڑے تکیے کو۔۔۔ قریشیے کی بُنائی کو چُھوتے ہوئے میں انور کی یاد کی جھالر میں الجھ جاتی ہوں۔ یقیناًوہ بیدار ہوگئے ہوں گے۔ انہیں تو یوں بھی سویرے جاگنے کی عادت ہے۔وہ معمول کے مطابق ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5