ترنم ہاؤس

افسانہ لکھنے کے لیے کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات ہی بہت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ترنم ہاؤس ایل پندرہ سو تینتالیس میں رہنے والے پچاس سالہ نواب الہ آبادی، ان کی انچاس سالہ بیوی ترنم جہاں ، دو بیٹے سہراب ، مہتاب اور بیٹی خانم جہاں کا یہ افسانہ جس میں مصنف کو کہانی گھڑنی نہیں پڑی، بلکہ وہ تو پہلی لہر ہی میں اس کے داغ میں اول تا آخری سطر پوری اتری تھی۔
نواب نے جب اس علاقے میں گھر خریدا تو وہ بہت خوش تھا، کہ اس کے گھر کے سامنے خوبصورت پارک ہے۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ مسلسل بدلتی ہوئی بلدیاتی حکومتوں کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ ان ہی بدلتی ہوئی ترجیحات نے اس پارک کو ایک میدان میں تبدیل کردیا تھا۔ اب کچھ عرصے سے ایک نیا منصوبہ زیر غور تھا کہ اس میدان کو ختم کرکے یہاں سے ایک سڑک وزیراعلیٰ ہاؤس کے لیے نکالی جائے ،تاکہ ٹریفک کے بڑھتے ہوے مسائل اور آئے دن کے خوف ناک دھماکوں سے بچاؤ کے پیش نظر سیکورٹی کی مشکلات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ انجینئروں نے آکر جگہ کا معائنہ کیا اور نشان لگا کر چلے گئے۔ چند دنوں میں میدان کے چاروں طرف اٹھی ہوئی دیوار مسمار کردی گئی۔ دیوار کا ملبہ اٹھانے کا مرحلہ آنے سے پہلے اچانک کام روک دیا گیا اور ٹھیکے دار اپنی ساری مشینری لے کر چلا گیا۔ اب میدان میں نہ سڑک تھی نہ دیوار، بس ملبے کا ڈھیر تھا۔ کسی نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی وجہ سے اب یہاں سے سڑک کی ضرورت نہیں رہی کیوں کہ نئے وزیراعلی شمال کے بجائے جنوب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تمام تعلق داریاں اسی طرف سے ہیں۔ میدان میں پڑے ہوے ملبے کا ایک ڈھیر نواب کے گھر کے دروازے کے عین سامنے بھی تھا، جس کی وجہ سے ایل پندرہ سو تینتالیس کا فرنٹ ایلی ویشن فیوز بلب کی طرح بجھ کر رہ گیا تھا۔
نواب نے جب یہ گھر خریدا تب یہ گھر تین کمروں پر مشتمل تھا۔ لوہے کا گیٹ جس کے سامنے محلے کا خوبصورت سجا سجایا پارک تھا، کہ ہر دیکھنے والا کہتا کہ نواب کے گھر کے سامنے کا منظر بہت خوبصورت اور دلکش ہے۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد جب بلدیاتی انتخابات ہوے تو اس علاقے سے جیت کر آنے والا کونسلر اپوزیشن پارٹی کا ممبر تھا۔ نتیجتاً سب سے پہلے پارک کی دیکھ ریکھ کرنیو الے مالی کا ٹرانسفر ہوا تو پودے جل گئے، گھاس سوکھ گئی۔ کچھ ہی دنوں میں چوکیدار بھی چلا گیا۔ کچھ معلوم نہیں اس کا ٹرانسفر ہوا، بھاگ گیا یا پھر بھتے پر چلا گیا، لیکن اس کے جانے کے بعد سب سے پہلے کھمبوں پر لگے روشنی کے ہنڈولے غائب ہوے، پھر پانی کی موٹر چوری ہوئی۔ ایک دن جھولے اپنی زنجیروں سمیت آزاد ہوگئے، اگلے روز پائپ زمین سے اکھڑے ہوے تھے۔ ایک صبح محلے والوں نے دیکھا کہ آدھا گیٹ اکھڑا ہوا ہے۔ دوسرے دن ایک کباڑیا اسے اٹھا کر چلتا بنا ۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے ہوا۔ مہینہ بھر پہلے جو سبزی بیچنے والے، سائیکل پر آئس کریم بیچنے والا، ردی والا یا اور دوسرے ٹھیلے والے اپنے ٹھیلے پارک کا چکر لگا کر آیا کرتے تھے۔ اب مہینے بھر کے بعد پارک کے بیچ میں سے گزر کر آنے لگے، کیوں کہ پارک اب ایک اجڑے ہوے میدان کا منظر پیش کررہا تھا۔
میں آپ کو بتارہا تھا کہ نواب کا گھر تین کمروں پر مشتمل ہے۔ لوہے کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر آٹھ دس فٹ چوڑی جگہ خالی تھی، پھر ساتھ ساتھ جڑے ہوے دو کمرے اور پیچھے کی سمت ایک کمرا، باورچی خانہ اور ایک چھوٹا سا کھلا ہوا ڈک تھا۔ ایک کمرے کو نواب اور ترنم نے بیڈ روم بنالیا، دوسرا بیٹھک اور تیسرا بچوں کو دے دیا گیا۔ اس گھر میں منتقل ہونے سے پہلے نواب جس گھر میں کرائے پر رہا کرتا تھا، وہاں اس کے پاس چار کمرے زیرِ استعمال تھے اور ان کے پاس گھریلو ضرورتوں کا سامان بھی چار کمروں کے حساب سے تھا۔ مگر جب وہ اپنے ذاتی گھر میں شفٹ ہوا تو ایک کمرا کم پڑ گیا۔ جس کی وجہ سے باقی تین کمرے سامان سے اٹ گئے، اور پھر بھی سامان بچ رہا۔ مثلاً لوہے کا صندوق، لوہے کی الماری وغیرہ گیٹ کے پاس خالی جگہ پر رکھ دیئے گئے۔ کچھ سامان پچھلے ڈک کی نذر کردیا گیا۔ آج کل کے بند گھروں میں آسمان صرف اسی ڈک سے دکھائی دیتا ہے۔ جتنا بڑا ڈک، اتنا بڑا آسمان۔ اگر باتھ روم کی بدبو بھری ہوا اور باورچی خانے کے کھانوں کے خوشبو بھرے دھوئیں کا مسئلہ نہ ہو تو ٹھیکے دار یہ ڈک بھی بنانے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ مگر اس گھر کو بنانے والے ذہین ٹھیکے دار نے صرف باتھ روم کے ہوا دان ہی اس ڈک میں نکالے تھے۔
گھر میں منتقل ہونے کے بعد پہلی مون سون کی بارش نے نواب اور ترنم کو آگاہ کردیا کہ انہیں کچھ مناسب بندوبست کرنے ہوں گے۔ تھوڑے ہی دنوں میں ترنم نے نواب کو اکسانا شروع کردیا کہ کم از کم گلی میں ایک چھپرا ہی ڈال دیا جائے تاکہ بارش سے سامان خراب نہ ہو۔ نواب کو بھی نقصان کا ڈر تھا، لہذا وہ دوسرے دن ہی واٹر پمپ سے چھپرا ڈالنے والا سامان، ایک مزدور اور مستری لے گیا۔ فٹ پاتھ والے مستری نے چھپرا بنانے میں وہی کردار ادا کیا جو سستے علاقے میں کھولے ہوے بیوٹی پارلر والے کسی دلہن کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ یعنی لیپا پوتی۔ بے چارے نواب کو بھی ایسے کاموں کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ مکان بنوانے کے تجربے سے تو وہ یوں بھی کبھی نہیں گزرا تھا۔ ٹین کی چادروں کا چھپرا ڈالنے کے بعد ترنم جہاں نے گیٹ کے پاس رکھی لوہے کی الماری اور صندوق بھی اسی گلی میں رکھوادیئے، اور وہیں واشنگ مشین کو بھی ایڈجسٹ کردیا، جو کہ اب تک باتھ روم میں رکھی ہوئی تھی۔
تھوڑے ہی دنوں میں موٹے موٹے چوہوں نے واشنگ مشین کے نیچے گھس کر موٹر کے تار کاٹ ڈالے اور صندوق میں راستہ بنا کر ایک کمبل اور دو لحافوں کو ایسا کتر ڈالا کہ آنے والی سردیوں میں بچوں نے یہ کہہ کر انہیں اوڑھنے سے منع کردیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان ہی سوراخوں سے چوہا گھس کر حملہ کرے گا۔
اس دوران ایک اچھی خبر سننے کو ملی کہ بلدیہ کے محکمہ پارک نے اس اجڑے ہوے میدان کو دوبارہ پارک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مگر ساتھ ہی نئے نئے منتخب ہو کر آنے والے یونین کونسل کے ناظم کو پارک کا جنوب مشرقی حصہ بے حد پسند آیا ۔انہوں نے وہاں اپنا دفتر تعمیر کروانے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ کونسل کی منظور ی اور ٹینڈر کے بغیر ہی گلے میں ہار ڈال کر فوٹو کھنچواتے ہوے سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ ٹھیکے دار نے آئندہ بڑے کاموں کی امید پر ناظم کو خوش کرنے کے لیے دوسرے دن سے کام شروع کردیا۔ نقشے کی رو سے کونسل ہال نواب کے گھر کے دروازے کے عین سامنے بنایا جانا تھا۔
ایک شام نواب دکان سے گھر پہنچا تو اس کے ساتھ ایک پرانا ایئرکنڈیشنڈ بھی تھا۔ بچے دیکھ کر خوش ہوگئے اور انہوں نے امی سے مطالبہ کیا کہ یہ اے سی ان کے کمرے میں لگایا جائے۔ امی نے اجازت دے دی مگر جب دیوار کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو نواب نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ بچوں کے کمرے میں لگانے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی پشت گیٹ سے نظر آئے گی اور میں نے الیکٹریشن سے جو تاروں میں ہیرپھیر کی بات کی ہے وہ پول کھل جائے گا۔ لہذا اے سی صرف ہمارے کمرے میں ہی لگ سکتا ہے تاکہ اس کا پچھلا حصہ گلی والے ڈک میں نکل سکے۔ یوں وہ باہر کے کسی شخص کو نظر نہیں آئے گا۔ بچے نواب کی دلیل سے خاموش ہوگئے ،اے سی نواب اور ترنم کے بیڈ روم میں لگادیا گیا، مگر پھر وہی ہوا کہ اے سی لگانے والے نے دیوار میں سوراخ بنانے کے لیے جو توڑ پھوڑ کی تو دیوار کی شکل ہی بگاڑ دی۔ پھر اے سی کو فٹ کرکے کمرے کے اندر سے خانے کو درست کردیا مگر گلی میں چادروں کا چھپرا ہونے کی وجہ سے باہر کی طرف سے نہ سوراخوں کو بھرا اور نہ ہی دیوار درست کی۔ چند دنوں میں ان سوراخوں میں ان ہی چوہوں نے جگہ بنالی، جنہوں نے کمبل اور لحاف میں دنیا کا نقشہ چھیدا تھا، بلکہ واشنگ مشین میں تاروں کو اتنی مہارت سے کاٹا تھا کہ موٹر کے پاس تاروں کو دوبارہ جوڑنے کے لیے تار کا معمولی سا سرا بھی نہیں چھوڑا کہ جس کی مدد سے جوڑ ملایا جاسکے۔
یونین کا دفتر بہت تیزی سے تعمیر ہوا، مگر تعمیر کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ گھر کی دیوار اور سابقہ پارک کی دیوار کے درمیان جو فاصلہ کبھی بیس پچیس فٹ تھا، اب گھٹ کر بارہ پندرہ فٹ رہ گیا ہے۔ نواب نے ایک دن یونین ناظم سے اس بارے میں شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا سیکورٹی کے پوائنٹ آف ویو سے کیا ہے، تاکہ یہ رستہ تیز رفتار گاڑی والے استعمال نہ کرسکیں، کہ اچانک گلی میں گھس آئیں اور واردات کرکے تیزی سے گزرتے چلے جائیں۔ نواب کا جی چاہا کہ بولے جناب سڑکیں تو چوڑی ہی اچھی لگتی ہیں۔ مگر کچھ کہنے سے پہلے ہی یونین ناظم نے کہا کہ ہمارا دفتر اب آپ کے اتنا قریب ہے کہ کسی دہشت گرد کی مجال نہیں کہ وہ آپ کے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ تب نواب خاموش ہوگیا۔
کچھ ہی دنوں میں ترنم جہاں نے باورچی خانے میں دھواں بھر جانے کی شکایت کی تو نواب نے الیکٹریشن بلوا کر اسی گلی والے ڈک میں ایک ایگزاسٹ فین لگوادیا۔ یوں ایک اور سوراخ کا اضافہ ہوگیا، جس طرح کسی غریب کا سوئیٹر اگلی سردیوں میں ایک اضافی سوراخ کے ساتھ صندوق سے نکلتا ہے۔
نواب نے محلے میں اپنی ازلی سادگی کی وجہ سے یہاں اچھے دوست بنالیے تھے۔ ہر ہفتے کی رات میدان کے ایک کونے میں واٹر بورڈ کے وال کنکشن والے چبوترے پر محلے میں بسے ہوے جوانوں، بزرگوں کی چوپال جما کرتی تھی۔ مگر جب موسم بدلتا اور سرد ہوائیں چلتیں تو چوپال سمٹتی سکڑتی ہوئی نواب کے پڑوسی اشفاق اللہ کے گھر میں منتقل ہوجاتی۔ اس سال بھی یہی ہوا، مگر دوسرے ہی ہفتے نادہندہ کرائے دار کی طرح تمام چوپال والے اشفاق اللہ سمیت فٹ پاتھ پر تھے ۔ نواب نے اشفاق اللہ کو شرمندگی سے بچانے کے لیے فوراً اپنے گھر کے دروازے وا کردیئے۔ نواب نے بچوں سے کمرا خالی کروایا اور انہیں اپنے کمرے میں بھیج دیا۔ پھر ہر ہفتے کی رات بچے نواب اور ترنم کے کمرے میں سونے لگے۔ سونے کی ترتیب کیا بدلی دھیرے دھیرے ترنم کا موڈ بھی بدلنے لگا۔ شاید پانچویں یا چھٹے ہفتے کی بات ہے، جب تاش کی محفل میں ارسلا اینڈریسن سے لے کر پامیلا اینڈریسن تک کا ذکر چل نکلا۔ شریف النفس نواب الہ آبادی رات ساڑھے تین بجے جب دوستوں کو خدا حافظ کہہ کر لوٹے تو سیٹر ڈے ٹوڈے اینڈ ٹومارو کے ڈی سیکا اور صوفیہ لارین بھی اس کے ساتھ کمرے تک آئے۔ نواب نے ترنم کے پیر کا انگوٹھا پکڑ کر ہلایا اور پھر جو جواب موصول ہوا تو ڈی سیکا اور صوفیہ لارین ہنستے ہوے غائب ہوگئے، اور نواب جھنجھلاتا ہوا بچوں کے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ حسنِ اتفاق سے دوسرے دن ترنم نے حیاتیاتی عمل کے زیر اثر سگنل ڈاؤن کرکے ٹرین کو آگے بڑھنے سے روک دیا، اور ہنستے ہوے بولی۔
’’اور جماؤ دوستوں کی محفلیں‘‘۔
پٹری پر دھواں چھوڑتی ہوئی ٹرین کی طرح نواب کو اور تو کچھ نہ سوجھا، وہ دوسرے دن ڈھائی سو بلاک ، ریتی ، سیمنٹ اور مستری کو بھی ساتھ ہی پکڑ لایا اور گیٹ کے پاس والی خالی جگہ پر ایک کمرا تعمیر کروانا شروع کردیا۔ ترنم خوب ہنسی کہ چلو اس بہانے گھر میں ایک کمرے کا اضافہ تو ہو ہی جائے گا۔ تین دن میں سڑک کی طرف دو دو فٹ باہر نکلے ہوے سیمنٹ کے لنٹروں کی مدد سے چوکوں والی چھت ڈال دی گئی، اور یوں کمرا تیار ہوگیا۔ مگر گھر کا ایلی ویشن جو پہلے ہی خوبصورت نہیں تھا اب کچھ اور بدصورت ہوگیا۔ تاہم گھر میں ایک کمرے کا اضافہ ضرور ہوگیا۔
بچوں کو اپنا کمرا واپس مل گیا ، دوستوں کو بیٹھک اور خود نواب کو اپنے کمرے کی تنہائی، مگر گھر کی بدصورتی جو پہلے اندر ہی اندر بڑھ رہی تھی، اب چہرے پر بھی ظاہر ہونے لگی ۔ اضافی کمرے کی خبر جب رشتہ داروں تک پہنچی تو ساٹھ سالہ بیوہ روشن خالہ آدھمکیں اور بولیں۔
’’نواب! میرا جنازہ اب تیرے گھر سے ہی اٹھے گا‘‘۔
دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا اور سرجھکادیا۔ بیٹھک روشن خالہ کے حوالے کردی گئی۔ کمرے کی جو سہولت حاصل ہوئی تھی، نہ صرف وہ چھین گئی بلکہ گھر کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوگیا۔ روشن خالہ کا اس دنیا میں بڑے عیال کو پالنے والی ایک بیٹی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ اسی لیے ترنم نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا۔ لیکن خالہ کے آنے سے اسے ایک نیا خیال سوجھا جسے اس نے نواب کے سامنے بیان کیا۔
’’کیوں نا ہم اوپر دو کمرے بنا کر کرائے پر دے دیں۔ کم از کم ڈھائی تین ہزار روپے کا آسرا ہوجائے گا‘‘۔
’’مگر ہمارے گھر میں اوپر جانے کے لیے زینہ تو ہے ہی نہیں؟‘‘
’’جب کمرے بنیں گے تو زینہ بھی بن جائے گا‘‘۔
’’مگر کہاں سے؟‘‘
’’گیٹ تڑوادو۔ چھوٹے گیٹ سے بھی کام چل جائے گا۔ یا پھر آدھا گیٹ اوپر والوں کے لیے آدھا ہمارے لیے‘‘۔
’’جگہ بہت تھوڑی سی ہے۔ زینہ بانس کی سیڑھی کی طرح کھڑا سا ہوجائے گا‘‘۔
’’مولوی صاحب کے مکان کی طرح چار پانچ قدمچے اگر سڑک پر بن جائیں تو کیا حرج ہے۔ انہوں نے تو آدھی مسجد سڑک پر بنا رکھی ہے‘‘۔
نواب کو ترنم کی بات سمجھ میں آگئی۔ کچھ ہی دنوں میں ان کے گھر کے دروازے پر ریتی بلاک پڑے ہوے تھے۔ کام بہت تیزی سے شروع ہوا، لیکن پایۂ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی جمع پونجی ختم ہوگئی۔ ہر چیز نواب کے اندازے سے زیادہ مہنگی ہوچکی تھی۔ پڑوسی اشفاق اللہ جو نواب کی مالی حالت سے آگاہ تھے، نے مشورہ دیا۔
’’نواب بھائی! پلاستر اور دیگر فنشنگ کا کام رہنے دو، صرف کھڑکی دروازے لگوالو، تاکہ کسی کو کرائے پر دے سکو۔ ڈھائی تین ہزار نہ سہی دو ہزار روپے کرائے پر تو آٹھ ہی جائے گا‘‘۔
نواب کو بات سمجھ میں آگئی۔ اس نے جیسے تیسے کام ختم کروایا اور سکون کا سانس لیا۔
اب نواب کے گھر کا فرنٹ ایلی ویشن ایک عجیب منظر پیش کررہا تھا۔ آدھا گیٹ زمین پر تھا اور آدھا تین فٹ اوپر، پہلی منزل پر جانے والے زینے کے چھ اسٹیپ سڑک پر نکلے ہوے تھے۔ دائیں طرف کے دو دو فٹ باہر نکلے ہوے لنٹر سے یونین ناظم نے گلی میں بینر باندھ دیئے تھے، جن پر سٹی ناظم کی آمد پر خوش آمدید کے الفاظ درج تھے۔ اوپری منزل کے لیے لگائے ہوے بلاک بغیر پلاستر کے اپنا کھردرا پن شدت سے نمایاں کررہے تھے۔ بلاکوں میں کھڑکی دروازے پھنسانے والی لوہے کی پٹیاں علاحدہ نمایاں ہورہی تھیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پچھلے ڈک کی بھی تھی، جہاں سیوریج کے پائپ اتارنے کے لیے چھپرے والی چادروں کو چیر پھاڑ دیا گیا تھا۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود شہر کے مرکزی علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے کمرے فوراً کرائے پر اٹھ گئے، اور اضافی آمدنی کا ذریعہ بن گئے۔
اس پورے افسانے میں نواب اور ترنم کے بچوں کا کردار نمایاں ہو کر سامنے نہیں آتا، کیوں کہ وہ اپنے امی ابو کے فیصلوں میں دخل ہی نہیں دیتے۔ البتہ چھوٹا بیٹا مہتاب الہ آبادی جس کے بارے میں ہر ایک کی یہ رائے ہے کہ اس کا سینس آف ہیومر کمال کا ہے، ایک رات خاموشی سے اٹھا اور دروازے پر لگی ہوئی ترنم ہاؤس کی تختی پر رنگ پھیر کر مارکر سے آئینِ پاکستان کے الفاظ لکھ آیا۔


(۲۰۰۸ء)