ایک اور عذاب

مندرا پریس کلب کی فٹ پاتھ پر بیٹھی خود کو ننگا کرنے کے لیے بے قرار تھی، تاکہ زندگی کی دُہر ی اذیت سے چھٹکارا مل سکے۔ وہ مسلسل بیس برس سے زبان کی گوری چمڑی سے چپکا ہوا سچ اگل دینا چاہتی تھی۔ وقت بھی کیسے کیسے پینترے بدلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ اپنے گورے رنگ سے بہت محبت کرتی تھی۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ وہ کالے کلوٹے، گندے سڑاند اور بدبو سے لِتھڑے ہوئے جسموں کے بیچ پیدا ہوئی تھی۔ بڑی ہوئی تو اِترانا آگیا۔ کیوں نہ آتا۔۔۔ بھنگی پاڑے کا ہر مرد اسے سُوئی کی طرح چُبھتی ہوئی نظروں سے گھورا کرتا۔ تب وہ غرور سے سینہ تان لیا کرتی۔ ایسا کرنے سے اس کا جوبن دو چند ہوجاتا۔
بڑی ہوئی تو ابا نے چاہا کہ بلدیہ کی نوکری پر لگ جائے، مگر یہ منع کرتی کہ ابا مجھے سڑکوں پر جھاڑو نہیں لگانی ہے۔ تب باپ چیختا کہ تو مہترانی ہے کوئی مہارانی نہیں،ا ور نہ ہی تیرا باپ انسپکٹر لگا ہوا ہے۔ برسوں کچرا اٹھانے کے بعد تیرا باپ سی بی اے کی مہربانی سے مقدم بنا ہے۔ اس سے زیادہ کا خواب دیکھنا منع ہے، ورنہ سوچ پر بھی جھاڑو پھر جایا کرتی ہے۔
مگر کسے معلوم تھا کہ شادی کے بعد بلدیہ کی نوکری اور جھاڑو ٹوکری اس کا مُقدر بن جائے گی۔ اس کے شوہر بنسی نے صرف ایک ہی کام سیکھا تھا۔
سنیما گیری۔۔۔
بلیک میں ٹکٹیں بیچ کر وہ خاصا کمالیتا تھا، مگر شراب اور فلموں کا شوق ایسا تھا کہ کمائی مندرا کے ہاتھوں میں پہنچتے پہنچتے غریب کے وسائل کی طرح سمٹ کر رہ جاتی۔ ان ہی دنوں سنیماؤں کی جگہ شاپنگ سینٹر تعمیر کرنے کی وبا پھیلی اور بنسی کی آمدنی محدود ہونے لگی تو مندرا نے بنسی سے کہا۔
’’تودُبئی مسقط یا جدہ کیوں نہیں چلا جاتا؟‘‘
’’پچیس تیس ہزار روپیہ چاہیے۔ اگر تیرے پاس ہیں تو دے، ایک ہی ہفتے میں چلا جاؤں گا‘‘۔
مندرا خاموش ہوگئی۔ گوری چٹی مندرا کے پاس روپے کی دولت نہیں تھی۔ اگر کچھ تھا تو وہ دو لڑکوں کی ماں ہونے کے باوجود اس کے روپ رنگ اور چال کا سجیلا پن تھا جسے دیکھ کر لوگ مسکرانے اور آوازیں کسنے لگتے تھے۔اب تو چاہنے والوں میں بلدیہ کے مقدم، سب انسپکٹر، انسپکٹر سے لے کر بڑے صاحب تک شامل تھے۔ مگر حیرت انگیز طور پر بھنگی پاڑے میں جہاں کچی شراب کے نشے میں ڈوبی بُھول چوک کے کئی نظارے دیکھنے کے باوجود اس نے بُھولے سے بھی کسی کو اپنا بدن چُھونے نہ دیا تھا، تو بھلا وہ دفتر والوں کو اپنے پنڈے پرکیسے ہاتھ رکھنے دیتی۔ مگر قسمت تو ست رنگی چُندری کی طرح ہمیشہ سے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ جس سے پیچھا چُھڑانا اس کے بس میں نہیں تھا۔
پھر ایک دن پتا چلا کہ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی عمارت میں آگ لگ گئی ہے۔ ساری عمارت میں رکھا تمام فرنیچر مع ریکارڈ ، سروس بُک، فائلیں اور واؤچر جل کر خاکستر ہوگئے۔ ایسے میں پے شیٹ کلرک ، اکاؤنٹنٹ سے لے کر بڑے صاحب تک کی لاٹری نکل آئی۔ جعلی سروس بُک بننے لگیں۔ جو ملازمین ساٹھویں برس ریٹائر ہونے والے تھے، انہیں پینتالیس اور پچاس کا بنایا جانے لگا، جو مرکھپ چکے انہیں زندہ ظاہر کرکے پینشن کمیوٹیشن وصول کی جانے لگی، جن کی ملازمت بیس برس بھی نہ تھی انہیں پچیس کا بنا کر از خود ریٹائرمنٹ کی صف میں کھڑا کرکے ایک جانب واجبات وصول ہونے لگے تو دوسری طرف انہیں دوبارہ ملازمت میں دکھا کر خانہ پُری کی جانے لگی۔ حصہ داروں کو اپنا حصہ وصول کرتے دیکھا تو مندرا بھی بابو انسپکٹر کے پاس پہنچ گئی۔
’’صاحب !میرے لیے بھی کچھ کرونا؟‘‘
’’کیا کروں؟‘‘
’’صاحب! جس طرح لکشمی بائی، ایمنیول اور کملا کو آپ نے پینشن گریجویٹی دلوائی ہے مجھے بھی دلواؤ نا۔ صاحب میرے آدمی کو پیسے کی ضرورت ہے۔ وہ سعودی عرب جانا چاہتا ہے‘‘۔
’’لیکن تیری سروس تو ابھی صرف دس سال ہے۔ اور تو خود بھی تیس سال ہی کی ہوگی۔ ہر ایک کا کھاتا نہیں کُھلتا۔ تیرا تو ویسے بھی بہت مشکل ہے‘‘۔
بابو نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ مندرا مایوس ہو کر پلٹی۔ اس کی امید دفتر کی جلی ہوئی دیوار کے پلاستر کی طرح بُھربُھری ہو کر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں سامنے کا دُھندلا مستقبل دیکھ رہی تھیں، اگر پیچھے ہوتیں تو دیکھ پاتیں کہ ہیلتھ انسپکٹر بابو کے چرس آلودہ لبوں پر زہریلی مسکراہٹ اور شاطرانہ نظریں کیسے لپکتی جھپکتی ہوئی منصوبے کا جالا بُن کر اس کے بدن پر اچھالنے والی تھیں۔دروازے کی جلی ہوئی چوکھٹ پار کرنے سے پہلے ہی بابو کی آواز نے اسے پلٹنے پر مجبور کردیا، مگر یہ پلٹنا تو غضب ہوگیا، کیوں کہ اگلے بیس سال وہ پتھر کی بن کر رہ گئی تھی۔
بیس برس بعد اس کی رگوں کا منجمد خون پھر سے دوڑنے لگا۔ پریس کلب کی فٹ پاتھ پر کمیونٹی کے بہت سے مرد ،عورتوں کے ساتھ بینر اور پلے کارڈ اٹھائے وہ سراپا احتجاج بنی بیٹھی تھی۔ ان برسوں میں زندگی جیسی گزری ،اسے سب یاد تھا۔ اسے یاد تھا کہ کئی بار بابو اور بڑے صاحب کے دربار میں حاضری دینے کے بعد جعلی پینشن گریجویٹی کا آدھا حصہ ملا اور بنسی جدہ چلا گیا۔ اسے یاد تھا کہ جانے سے پہلے بنسی یہ سن کر کہ تیسرا بچہ ہونے کی امید ہے وہ بہت خوش ہوا ،اور بولاتھا۔
’’دیکھ اس بار لڑکی ہونی چاہیے۔ اب میں جدہ سے اتنا کما کر بھیجوں گا کہ ہمارے سارے دلدّر دور ہوجائیں گے۔ بیٹی کی بات ہی الگ ہے۔ بیٹے سالے حرامی بڑے ہو کر کون سا ڈھنگ کا کام کریں گے‘‘۔
یہ سُن کر مندرا کے جی میں آئی کہ فورا کہہ دے ، دیکھ بنسی کم از کم بیٹوں کو حرامی نہ بول۔ مگر وہ کہہ نہ سکی، بس ٹُک ٹُک بنسی کو دیکھتی رہی جو اپنی دُھن میں بولے جارہا تھا۔
’’ہماری بیٹی کا نام تو لکشمی ہونا چاہیے، لیکن ہم نیا نام رکھیں گے۔ کوئی ٹینا مینا ٹائپ کا نام یا پھر جیسے مسلمانوں میں آج کل رکھتے ہیں‘‘۔
مندرا کو یاد تھا کہ یہ سُن کر اسے ابکائی آئی تھی اور جی چاہا تھا کہ تسلہ بھر کر الٹی کردے۔ مگر وہ پھیکی مسکراہٹ سجائے بنسی کو دیکھتی رہی۔
آنے والے برسوں میں بنسی نے دن رات ایک کردیئے۔ گھر کی حالت سُدھر گئی۔ تینوں بچے اسکول جانے لگے۔ خوش حالی نے گھر کی دہلیز چومی تو مندرا نے بلدیہ کی نوکری کا دروازہ خود ہی بند کردیا۔ آس پڑوس کی عورتوں نے کہا کہ میڈیکل ریٹائرمنٹ لے لے تاکہ پنشن کمیوٹیشن مل جائے تب مندرا نے برف سے ٹھنڈے لہجے میں کہا۔
’’وہ ایک بار ملتی ہے ۔۔۔جو میں لے چکی ہوں ۔۔۔اب نہیں چاہیے‘‘۔
سب یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ عجیب دیوانی ہے۔ مگر یہ دیوانی اپنی دُھن میں زندگی کے سمندر میں خوشیوں کے جزیرے ابھارتی رہی کہ اچانک سمندر میں ہلچل مچ گئی۔
اس کی بیٹی اسکول سے نہیں لوٹی تھی۔
شام تک اِدھر ادھر ڈھونڈتے وہ نڈھال ہوگئی۔ دونوں بیٹوں نے بھی جگہ جگہ تلاش کیا۔ اس رات مندرا کا بستر کانٹوں سے بھر گیا۔ اگلے دن وہ کمیونٹی کی دوسری عورتوں کے ساتھ بولائی بولائی پھرتی رہی۔ مگر زیب کا کہیں پتا نہیں تھا۔ تھک ہار کر وہ تھانے میں رپورٹ درج کر واآئی۔ تب بھی اس نے خود ڈھونڈنا بند نہیں کیا تھا۔ بھلا گلی کوچوں میں بھی کہیں لڑکیاں ملتی ہیں؟ مگر وہ تو زیب کو وہاں بھی تلاش کرتی رہی ۔ پان کے کھوکھے کے پیچھے، تندور کی آڑ میں، حلوائی کے چبوترے کے نیچے۔
محلے میں سب کو پتا چل گیا تھا کہ مندرا کی بیٹی گم ہوگئی ہے ۔کسی نے کہا بھاگ گئی ہوگی، آج کل کی نسل کا کیا بھروسہ۔ کوئی بولا لڑکیوں کو پڑھانے کا یہی نقصان ہے۔ لیکن مندرا سب سُنی اَن سُنی کرتی رہی۔ تیسرے دن بنسی آگیا اور اسی دن زیب کا پتا لگ گیا۔
حواس باختہ مندرا کے پیروں تلے زمین سَرک گئی۔ وہ دھم سے چارپائی پر ڈھیر ہوگئی۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
وہ چیخی اور یکایک بنسی کا بازو پکڑ کر اٹھی اور لشتم پشتم لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی تیسری گلی میں میدان کے سامنے جامع مسجد کا بغلی دروازہ جا کر دھڑا دھڑپیٹنے لگی۔ آنکھوں سے مامتا کی جھری برس رہی تھی۔ منہ غصیلے جھاگوں سے بھرا ہوا تھا۔ دروازہ کھلا تو مولوی ہدایت اللہ کا چہرہ نمودار ہوا۔ مندرا دیکھتے ہی چلّائی۔
’’ملا جی! تمہیں میری ہی بیٹی ملی تھی مسلمان کرنے کے لیے۔ ہٹو راستے سے، مجھے میری بیٹی واپس دو‘‘۔
’’رُک ناپاک عورت، یہ اللہ پاک کا گھر ہے۔ تیرے قدموں سے ناپاک ہوجائے گا۔ اور سُن تیری بیٹی کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئی ہے اورمیرے چھوٹے صاحبزادے سے نکاح کرلیا ہے۔ اب وہ ہماری بہو ہے اور مسلمان ہے۔ لہذا تیرے سے اس کا رشتہ ختم‘‘۔
’’اچھی کہی ملا جی۔۔۔ پیدا میں کروں، پالوں میں ۔۔۔اور مجھ ہی سے رشتہ ختم۔۔۔ اگر تمہاری مسجد ناپاک ہوتی ہے تو میری بیٹی کو باہر بُلواؤ‘‘۔
’’بے وقوف عورت مسلمان گھرانے کی بہو بیٹیاں سڑکوں پر نہیں نکلا کرتیں۔ پردے میں رہتی ہیں۔ اب تو یہاں تماشا نہ کر، اپنے گھر جا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے مولوی ہدایت اللہ نے دروازہ بند کردیا۔ مندرا ہکا بکا دیکھتی رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے، کس سے فریاد کرے ، کہاں دُہائی دے۔ تب بنسی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور روتے ہوئے بولا۔
’’مندرا! اب وہ ہماری بیٹی نہیں رہی‘‘۔
مندرا چیخی۔
’’تیری نہیں ہوگی، لیکن وہ میری بیٹی ہے‘‘۔
یکایک دماغ میں برسوں کی جمی برف چٹخنے لگی۔ اس نے زندگی کی کتاب کے ان درمیانی صفحات کو پلٹ ضرور دیا تھا، مگر بھولی نہیں تھی۔ تب مندرا کا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر رگوں میں اترا ہوا سارا زہر اگل دے، تاکہ زندگی کی اس دُہری اذیت سے چھٹکارا مل سکے۔
یہی سوچ کر وہ پریس کلب کی فٹ پاتھ پر خود کو ننگا کرنے چلی آئی تھی۔


(۲۰۰۶ء)