بس اتنا ضروری ہے
کچھ دنوں سے جب میں بیدار ہوتی ہوں تو میرا ہاتھ بے ساختہ دوسرے تکیے کو چھونے لگتا ہے۔
میری طرح خالی پڑے تکیے کو۔۔۔
قریشیے کی بُنائی کو چُھوتے ہوئے میں انور کی یاد کی جھالر میں الجھ جاتی ہوں۔ یقیناًوہ بیدار ہوگئے ہوں گے۔ انہیں تو یوں بھی سویرے جاگنے کی عادت ہے۔وہ معمول کے مطابق بیدار ہوتے ہی مسجد چلے جاتے ہیں اور اجالا پھیلنے پر واپس آتے ہیں۔ میں ناشتے کی تیاری میں لگ جاتی ہوں۔اور پھر انور ناشتہ کرکے کالج چلے جاتے ہیں۔ ادھرکچھ دنوں سے وہ کالج سے چھٹی لے کر ساتھیوں کے ہمراہ چلّے پر گئے ہوئے ہیں۔ اسی لیے پُھولے ہوئے تکیے پر سرکا بوجھ نہ پا کر ان کی یاد کا بوجھ میرے سینے پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ تب تنہائی خالی کمرے کو اپنی سہیلی اداسی سے بھردیتی ہے۔ اور میں یوں سوچ میں پڑ جاتی ہوں جیسے کوئی اپنے دشمنوں کے یکجا ہونے پر پڑ جاتاہے۔ مگر میں اتنی تنہا کہاں ہوں؟ گھر کے نچلے حصے میں انور کے اماں، ابا اور سرور ہیں۔ اوپر کی منزل کے کمرے میرے استعمال میں ہیں۔ اور اوپر بھی اب میں اکیلی کب ہوں؟ ساڑھے چھ ماہ کے حمل سے ہوں۔ اب تو کوئی ہر پل میرے وجود میں مجھے گُدگُدا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ لیٹے ہوئے مچلتا ہے تو بے اختیار اٹھ بیٹھتی ہوں اورچلتے میں سرسراتا ہے تو قدم رُک رُک جاتے ہیں۔ تب نشاط انگیز مسکراہٹ میرے لبوں پر بکھرنے کی کوشش کرتی ہے اور میں اسے چُھپاتے ہوئے کمرے میں آجاتی ہوں۔ مگرکمرے میں پھیلی تنہائی اپنی سہیلی اداسی کے ساتھ میری مسکراہٹ پر حملہ کرتی ہے اور وہ گھبراکر کسی کونے کھدرے میں چھپ جاتی ہے۔ دن ہو یا رات کچھ دنوں سے میرے ساتھ یہی ہورہا ہے۔ میں اپنی سرشاری انور کے سوا کسی کو نہیں بتاسکتی مگر انور۔۔۔
ابھی میں سب کو ناشتہ دے کر اوپر آئی ہوں۔ بستر جھاڑا۔۔۔چادر دُرست کی ۔۔۔ کمرا صاف کیا تو ایک بار پھر تنہائی کا عفریت ڈکارتا ہوا میرے کمرے میں اتر آیا۔ تنہائی کمرے میں رکھی ہر چیز پر حاوی ہوئی تو میں ہر شے سے بیزار ہوگئی اور جب میرے وجود میں سرائیت کر گئی تو میں ڈھے گئی۔ تب میرے بدن نے بستر کا سہارا لیا۔ مجھے لگا جیسے کوئی میرے وجود میں ڈوبتے ڈوبتے تیرنے کی جستجو میں ہاتھ پاؤں چلانے کی کوشش کررہا ہو۔
مجھے ایک بار پھر انور کی شدید خواہش ہوئی۔ کاش میں انہیں بتا پاتی کہ کوئی کیسے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ مگر اس وجودی احساس سے ہٹ کر مجھے تنہائی کے عفریت سے اکیلے ہی نبرد آزما ہونا ہے۔ میں جانتی ہوں تھوڑی دیر بعد اماں مجھے آواز دیں گی۔ میں لپک کر ابھی آئی کہتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بڑھوں گی۔ وہ نیچے سے چلائیں گی۔ ارے بہو! ذرا سنبھل کر ۔ اپنا نہ سہی، بچے کا خیال کرو۔ یہ نگوڑی چھلانگیں مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ بچے کو نقصان پہنچاؤ گی کیا؟ اور یہ پیل دوج کھیلنے کے انداز میں تو ہر گز نہ چلا کرو۔ بالکل اچھی نہیں لگتی ہو۔
یہ روز کا معمول ہے اور میں بھی کمبخت ایسی عادی ہوں کہ ذرا کان نہیں دھرتی۔ آٹھ ماہ کی بیاہی لڑکی کا تجربہ ہی کتنا ہوتا ہے۔
نیچے جاتے ہوئے تنہائی،ڈر اور اداسی یہیں کمرے میں رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں من موہنی باتوں کا جادو سرور کو آتا ہے۔ کاش وہ میرے کمرے میں بھی آیا کرتا۔ لیکن یہ فاصلہ اس نے خود ہی برقرار رکھا ہوا ہے ورنہ میرے کمرے سے تنہائی اور اداسی کب کے بھاگ گئے ہوتے۔
سرور اس بات سے واقف ہے کہ انور اکثر مجھے ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنی سوچ میں کنڈلی مارے بیٹھے محرم اور نامحرم کے فرق کو سمجھاتے رہتے ہیں۔ اس زد میں سرور بھی آتا ہے۔ سوچتی ہوں ایک گھر میں رہتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے۔ کیا دیور بھائی نہیں ہوسکتا؟
سرور مذہبی مزاج نہ رکھنے کے باوجود گھر کی روایتوں سے خوب واقف ہے۔ میں نے اسے ہمیشہ ایک حسّاس، خوش مزاج، اور احترام کرنے والا پایا۔حالاں کہ وہ گھر کی فرسودہ روایتوں سے مسلسل بغاوت کرتا رہتا ہے۔ وہ اکثر اپنے سوالوں سے بڑے بھائی کو زچ بھی کرڈالتا ہے۔
’’آپ یوں نہ چلے جایا کریں‘‘۔
’’پاکستانی انگریز صاحب! یہ فرض تم پر بھی اتنا ہی عائد ہوتا ہے جتنا مجھ پر‘‘۔
’’قرآن کہتا ہے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، یعنی ایک جماعت‘‘۔
’’تو پھر چلو، میں اس جماعت میں سے ہوں‘‘۔
’’بھائی میاں! اگر کسی کی گھر میں موجودگی ضروری ہو تو اس پر جہاد بھی فرض نہیں ہوتا‘‘۔
’’تم جیسے لوگ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو پیروں کی زنجیر بنالیتے ہیں‘‘۔
’’یوں تو پھر آپ کو اپنے پیروں میں زنجیر ڈالنے کی خواہش بھی نہیں کرنا چاہیے تھی‘‘۔
انور نے غصے سے سرور کو دیکھا تھا۔ مگر انور پر ابا کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ سرور اس قدر مختلف کیوں ہے۔ دونوں ایک ہی گھر میں پیدا ہوئے، ایک ہی اسکول میں پڑھے اور ایک ہی کاروبار سے منسلک ہیں۔ لیکن جب جواب نہیں سوجھتا تو سوچنا چھوڑ دیتی ہوں۔ بھلا خود کو الجھانے سے کیا حاصل ۔ یہ کیا کم ہے کہ کوئی میرا ہم مزاج بھی ہے۔
میں دیر سے کمرے میں ہوں۔ اماں مجھے آواز دینا بھول گئی ہیں۔ مجھے خود ہی جانا چاہیے۔ کیا ضروری ہے کہ ان کی پُکار پر ہی جاؤں۔ خود بھی تو کچن میں جاسکتی ہوں۔ مگر اماں کا طریقہ یہی ہے۔ ابا کہتے ہیں کہ بہو بلا ضرورت گھر میں اِدھر ادھر نہ پھرا کرے۔ مگر مجھے کمرے کی گھٹن سے باہر نکلنا ہے۔ ابھی ارادہ ہی کرتی ہوں کہ انور کی بہت سی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یاد آجاتی ہے۔ اور میں خاموشی سے بستر پر پیرلٹکا کر بیٹھ جاتی ہوں۔ مگر کیا آج دوپہر کے کھانے کی کوئی تیاری نہیں ہوگی؟ کھانا ایسے ہی منٹوں میں تو نہیں بن جاتا۔ بیسیوں کام ہوتے ہیں۔ صفائی ستھرائی۔۔۔ جھاڑ پونچھ۔۔۔ ہنڈیا روٹی۔۔۔ روٹی کا معاملہ توسب سے الگ ہے۔ سارے گھر کے لیے روٹی ایک ہی وقت میں بنائی جاسکتی ہے، اور کسی بھی وقت کھائی جاسکتی ہے۔ حتیٰ کہ آٹا رات کا گوندھا ہوا بھی چل سکتا ہے۔ مگر ابا کو ایسی روٹی قطعی پسند نہیں۔ انہیں توے سے اتری ہوئی پُھلکا جیسی روٹی چاہیے۔ وہ بھی ابھی کے گوندھے ہوئے آٹے سے۔
میرے پیٹ میں پھر حرکت شروع ہوگئی۔ میں ہتھیلی سے محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یکایک مجھے خوش گوار احساس ہوتا ہے ۔ میں انگلیوں سے پیٹ کو ٹٹولتی ہوں۔ کوئی چیز حرکت کرتی ہوئی کبھی اِدھر سے ادھر اور کبھی دائرہ بناتے ہوئے گھومنے لگتی ہے۔ لمحہ بھر کو میری انگلیاں چھوٹے چھوٹے پیروں کو چُھونے کا مزہ لیتی ہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ یہ میرے ہونے والے بچے کے پیر ہی لگتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے۔۔۔ تکیے میں بھری روئی کی طرح۔۔۔
سرشاری سے بھری دبی دبی چیخ کمرے میں بکھر جاتی ہے۔ میں فوراً ہاتھوں سے منہ کو بھینچ لیتی ہوں کہ کہیں آواز باہر نہ چلی جائے۔ ذرا دیر کو میرا دھیان بٹ جاتا ہے۔ میں تکیے پر سر رکھ کر ڈھیر ہوجاتی ہوں۔ دھیان کا کھوجی ایک بار پھر انور کو تلاش کرنے لگتا ہے، مگر وہ تو کئی ماہ گھر نہیں لوٹیں گے، اور جب لوٹیں گے تو معلوم نہیں کہ بچے کی یہ شرارتیں برقرار رہیں گی کہ نہیں؟ تب میرا جی چاہتا ہے کہ میں ساری پابندیاں توڑ کر باہر نکل جاؤں۔
کمرے سے۔۔۔ گھر سے۔۔۔ شہر سے۔۔۔
وقت کی ساعتوں کا سفر دھیرے دھیرے گھنٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ نچلی منزل سے کوئی آواز آئی نہ بلاوا۔شاید اماں نے خود ہی کچھ نہ کچھ پکالیا ہوگا۔
سورج میری کھڑکی کے دبیز پردے کے پیچھے پوری آب و تاب سے چمک رہا ہوگا۔ اسے بھی سرور کی طرح میرے کمرے میں اترنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں بے زاری سے کروٹ لے کر لیٹ جاتی ہوں اور اپنی آنکھیں موند لیتی ہوں۔ کچھ دیر خالی الذہن لیٹے رہنے کے بعد مجھے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ میں پلٹ کر دیکھتی ہوں۔ اماں کھانے کی ٹرے اٹھائے موجود تھیں۔
’’ارے ۔۔۔ آپ!‘‘
میں بے ساختہ پوچھتی ہوں۔ اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی ہوں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اماں میرے لیے کھانا لائیں۔ شرمندگی کی حالت میں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ کبھی کبھار کمرے میں آتی ہیں، مجھ سے باتیں کرتی ہیں۔ مگر آج وہ کھانے کی ٹرے اٹھائے ہوئے تھیں۔ میں حیران ہوتے ہوئے پیر سمیٹ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ وہ خود بھی ٹرے رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ میرے استفسار پر بتاتی ہیں کہ تمہارے ابا کا حکم ہے کہ اب تم بچے کی ولادت تک صرف آرام کرو اور زیادہ وقت اپنے کمرے میں رہا کرو۔
میں خاموش ہوجاتی ہوں۔ سوچتی ہوں پوچھوں یہ حکم نامہ میرے آرام کے لیے ہے یا سرور سے پُھولا ہوا پیٹ چُھپانے کے لیے؟ مگر مجھے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میں اپنی سوچ پر قابو نہیں رکھ سکتی، جو ہمیشہ ایسے احکام جاری ہونے پر مجھے بغاوت پر اکساتی ہے۔
جب کہا کہ بہو پوری آستین کا کرتا پہنا کرو تو جی چاہا اپنی تمام قمیصوں کی آستینیں آدھی کرڈالوں اورننگی کلایوں کو چوڑیوں سے بھردوں۔ جب کہا کہ باہر جاتے ہوئے چہرہ اچھی طرح ڈھانپ لیا کرو تو جی چاہا کہ سر پر اوڑھا ہوا اسکارف بھی اتار پھینکوں۔
شادی کے بعد احکامات مجھے اماں کے توسط سے ملا کرتے تھے، مگر چند ماہ بعد ہی ابا مجھے براہ راست بھی حکم دینے لگے۔ ایسے موقعوں پر اماں موجود ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کہتیں۔ ابا کے سامنے ان کی گردن محکوم رعایا کی طرح جُھک جاتی ہے۔ سرور بتاتا ہے کہ پچھلے پینتیں برسوں میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا جب اماں نے ابا سے اختلاف کیا ہو۔ تب میں نے سرور سے کہا تھا کہ اسی لیے ابا میں خود سری بہت زیادہ ہے۔ جہاں اختلاف ضروری تھا وہاں اماں نے اختلاف کیا ہوتا تو آج ابا ایسے نہ ہوتے۔ اگر حق کے لیے ہو تو اختلاف بُری چیز نہیں۔
اماں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلی گئیں ہیں۔ میں ان کے آنے سے شرمندہ ہوں۔ سوچتی ہوں مجھے خودنیچے جانا چاہیے تھا۔ چلو اب چلی جاؤں گی۔ ابا نے منع کیا ہے تو کیا ہوا۔
میں کھانا کھانے لگتی ہوں۔ میں جانتی ہوں مجھے ان دنوں اپنا خیال رکھنا ہے۔ میرا دھیان ایک بار پھر بچے کی طرف چلا جاتا ہے اور میں کھانا کھاتے ہوئے ایک بار پھر حیرت انگیز سرشاری میں ڈوب جاتی ہوں۔ سوچ کے پرندے تصور کے پر لگا کر کمرے میں اڑنے لگتے ہیں۔
عید سے پہلے مجھے کمرے میں وال ٹو وال کارپیٹ بچھوانا ہے۔ بچے کو گُھٹنے چلنے میں آسانی رہتی ہے۔۔۔
دروازے پر رکھے مٹی کے گملے ہٹوادوں گی، اکثر بچے گملوں کی مٹی کھاتے ہیں۔۔۔
ٹی ٹرالی کے شیشے اکثر ٹوٹ جاتے ہیں، اور یوں بھی یہ اتنی ہلکی ہے کہ کوئی بھی چھوٹا بچہ اسے گھسیٹ کر دیوار سے ٹکراسکتا ہے، ٹی ٹرالی کو ہٹادینا ہی بہتر ہے۔۔۔
یکایک میرے اندر سے آواز آئی۔
بے وقوف ابھی تو بہت وقت ہے۔
کہاں وقت ہے؟ وقت تو اس مسافر کی طرح ہے جو پیچھے پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے اور نہ گھڑی دو گھڑی رُکتے ہیں۔ انور کی طرح۔۔۔
انور کی یاد ایک بار پھر مجھے جکڑنے لگی۔ میں نے سر کو جھٹک دیا۔ کیا فائدہ ایسی یاد کا۔ بھلا کوئی ایسے جاتا ہے۔ تصورکے پر تحلیل ہوگئے اور سوچ کے پرندے ایک ایک کرکے گرتے چلے گئے۔ میرے سامنے کھانے کی ٹرے رکھی ہوئی تھی۔ میں نے وہ اٹھائی اور زینے کی طرف بڑھ گئی۔ بے دھیانی میں میرا پہلا ہی قدم غلط پڑا۔ سنگِ مرمر کے اسٹیپ پر میرا پیر پھسلا اور پھر میں نیچے پھسلتی چلی گئی۔ پہلے ہی قدم پر میرے حواس گم ہوگئے۔ پورا گھر جھٹکے لینے لگا۔ پھر مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔ جب بیدار ہوئی تو ہسپتال میں تھی۔ میرے اِردگِرد امی، پاپا، اماں، ابا ، سرور اور انور بھی موجود تھے۔ امی نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔
’’خدا کا شکر ہے تم خیریت سے ہو اور تمہارا بچہ بھی۔ ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ کرلیا ہے، سب ٹھیک ہے۔ تمہیں اپنے دیور سرور کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، جس نے تمہیں بروقت سنبھال لیا ورنہ بہت نقصان ہوجاتا۔ اسی نے تمہیں گود میں اٹھا کر ٹیکسی میں لٹایا اور ہسپتال لایا۔ اور تمہاری دیکھ بھال کی۔ انور کو تو بعد میں بُلوایا۔
میں نے یہ سُن کر انور کو دیکھا وہ میرے نزدیک ہی کھڑے ہوئے تھے۔ انور کی آنکھوں سے ان کے احساسات کا اندازہ لگانامشکل ہوتا ہے، مگر مجھے ان کا لرزتا ہوا ہاتھ دکھائی دے رہا تھا جو میرے ہاتھ کی طرف بڑھتے بڑھتے رُک جاتا تھا۔ میں ان کی کشمکش کو محسوس کررہی تھی۔ وہ گھر کی بوسیدہ روایتوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ چلّہ ادھورا چھوڑ کر آنے پر ابا نے انہیں ڈانٹا بھی ہو کہ تمہیں کیا ضرورت تھی۔ یہاں دیکھ بھال کرنے والے موجود تو ہیں۔ اور ہوسکتا ہے سرور پر بھی غصے ہوئے ہوں کہ اس نے مجھے چھوا کیوں؟ ہوسکتا ہے کہ یہ الجھن انور کی بھی ہو۔
اس وقت میری آنکھوں میں کئی سوال تھے جن کے جواب مجھے انور سے درکار تھے۔ میں نے ہمت کرکے اپنی آنکھیں ان کے چہرے پر گاڑھ دیں۔ اور سارے سوال ان پر الٹ دیئے۔ وہ تھوڑا سا گھبرائے مگر یکایک مجھے ان کے وجود میں تبدیلی سی محسو س ہوئی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بڑے اعتماد کے ساتھ سب کے سامنے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔اسی لمحے کسی نے میرے وجود میں کروٹ لی۔ میں بے ساختہ ہنسنے لگی۔
(۲۰۰۷ء)