Kumar Pashi

کمار پاشی

ممتاز جدید شاعر،رسالہ "سطور" کے مدیر

Prominent modernist poet who also edited a literary Magazine 'Satoor'

کمار پاشی کی غزل

    اب بھی پل پل جی دکھتا ہے

    اب بھی پل پل جی دکھتا ہے جیسے سب کچھ ابھی ہوا ہے کبھی نہ پھر ملنا ہو جیسے آج وہ مجھ سے یوں بچھڑا ہے بادل تو کھل کر برسا تھا پھر بھی سارا دن جلتا ہے ہم بھی کبھی خوش ہو لیتے تھے آج اچانک یاد آیا ہے ساون ہو پت جھڑ ہو کہ گل رت دل ہر موسم میں تنہا ہے بدن بدن خوشبو پھیلی ہے گھونگھٹ ...

    مزید پڑھیے

    ہوئے ہیں بند دشاؤں کے سارے رستے آ

    ہوئے ہیں بند دشاؤں کے سارے رستے آ اندھیرا چھانے لگا لوٹ کر پرندے آ میں تیری ساری تمازت کو جذب کر لوں گا تو آفتاب کبھی میرے دل میں بجھنے آ کبھی دکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے آ یہاں تو کب سے اندھیروں میں غرق ہے دنیا ادھر جو آ تو ستاروں کی ...

    مزید پڑھیے

    محفل میں کسی کی ہم نے انہیں اک بار ذرا دیکھا ہی تو ہے

    محفل میں کسی کی ہم نے انہیں اک بار ذرا دیکھا ہی تو ہے یوں نام پہ ان کے دھڑکے ہے دل گویا ان سے رشتہ ہی تو ہے یادوں کے سہانے موسم میں اس گرم بدن کی آنچ لیے چل نکلے ہیں ہم یوں خوش خوش ہے جیسے وہ ادھر رہتا ہی تو ہے ہم کچھ بھی کہیں لیکن ان سے جو ایک تعلق تھا نہ رہا رشتے کی حقیقت کیا معنی ...

    مزید پڑھیے

    چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا

    چال اک ایسی چلی ہر شخص سیدھا ہو گیا بات بس اتنی کہ میں تھوڑا سا ترچھا ہو گیا لوگ بولے اب نیا ہو جا پرانا پن اتار میں بھی کیا کرتا سر بازار ننگا ہو گیا اس جنم میں پھر مجھے ویسی ہی گمنامی ملی اتفاق ایسا کہ پھر اس گھر میں پیدا ہو گیا ٹوٹ کر تارے گرے کل شب مری دہلیز پر اس کی بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے رنگ میں دنیا پہ آشکار ہوا

    ہوا کے رنگ میں دنیا پہ آشکار ہوا میں قید جسم سے نکلا تو بے کنار ہوا ستارے ٹوٹ کے تاریکیاں بکھیر گئے یہ حادثا بھی سفر میں ہزار بار ہوا بلندیوں پہ تھا محو سفر ہوا کی طرح لباس خاک جو پہنا تو خاکسار ہوا لہولہان ہوا بحر و بر کا ہر منظر جو میری راہ میں آیا مرا شکار ہوا تمام شہر نے ...

    مزید پڑھیے

    گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں

    گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں ختم ہوا ہر ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے

    یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے پرندے لوٹ کے آنے لگے اڑانوں سے کوئی تو ڈھونڈ کے مجھ کو کہیں سے لے آئے کہ خود کو دیکھا نہیں ہے بہت زمانوں سے پلک جھپکتے میں میرے اڑان بھرتے ہی ہزاروں تیر نکل آئیں گے کمانوں سے ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں ...

    مزید پڑھیے

    خوشبوئے درد کے بغیر رنگ جمال کے بغیر

    خوشبوئے درد کے بغیر رنگ جمال کے بغیر کیسے گزر گئی حیات ہجر و وصال کے بغیر ان میں ترا ہی رنگ ہے ان میں ترا ہی روپ ہے پھولوں کی کیا مثال دوں تیری مثال کے بغیر میری طلب کو پڑھ لیا اس کی نگاہ تیز نے سو سو ہیں عذر اس کے پاس میرے سوال کے بغیر تو میرا حوصلہ تو دیکھ پھر ہوں اسی کے ...

    مزید پڑھیے

    خواہشوں نے بنا وہ جال اب کے

    خواہشوں نے بنا وہ جال اب کے بچ نکلنا ہوا محال اب کے ڈوب جاؤں گا شب کے ساتھ کہیں دیکھنا تم مرا کمال اب کے میں نہیں تیرہ خاکداں میں کہیں دل میں آیا یہ کیا خیال اب کے یاد ماضی نہ خواب مستقبل یوں ہوا ہے مرا زوال اب کے چھوٹے جاتے ہیں ہاتھ سے پتوار مجھ کو موج رواں سنبھال اب کے

    مزید پڑھیے

    لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے

    لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے ہم بیابانوں میں تب خاک اڑانے نکلے کھل گیا دفتر صد رنگ ملاقاتوں کا حسن کے ذکر پہ کیا کیا نہ فسانے نکلے عشق کا روگ کہ دونوں سے چھپایا نہ گیا ہم تھے سودائی تو کچھ وہ بھی دوانے نکلے جب کھلے پھول چمن میں تو تری یاد آئی چند آنسو بھی مسرت کے بہانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3