Kumar Pashi

کمار پاشی

ممتاز جدید شاعر،رسالہ "سطور" کے مدیر

Prominent modernist poet who also edited a literary Magazine 'Satoor'

کمار پاشی کی نظم

    رشتوں کی پہچان

    ہمیں سب پتا ہے کہ ہم دھرتیوں کے نرالے فسوں سے ازل سے شناسا ہیں اور نیلگوں آسمانوں کا نشہ بھی ہم نے چکھا ہے انہیں غم یہی ہے کہ ان کے سروں پر کوئی آسماں ہے نہ پاؤں کے نیچے زمیں ہے فقط اک خریدا ہوا کرب قسمت ہے ان کی ہمیں سب پتا ہے انہیں لوٹنا ہے پشیمان ہو کر سفر کے دکھوں سے پریشان ہو ...

    مزید پڑھیے

    خواب تماشا(۳)

    سنجے بولے اتر دکشن پورب پشچم اب کوئی بھی منظر صاف نہیں نقشے ہیں کئی پیلے نیلے دو سیارے اوپر نیچے اک سورج سے ٹکرا ہی گیا ہر سمت وہی پیلی آندھی اور اندھے جھکڑ شعلوں کے تم کس نقطے کی پوچھتے ہو اب کوئی بھی منظر صاف نہیں اب کوئی نہیں ہاں وہ بھی نہیں یہ کس کا خواب تماشا ہے میں جس میں ...

    مزید پڑھیے

    میرا جرم

    دیوتاؤں نے مجھ سے کہا تھا کہ جب چندر ماؤں کے آئینوں پر گرد جم جائے گی اور سورج سمندر کی گہرائیوں میں اتر جائیں گے تب ہر اک رنگ کالک میں تبدیل ہو جائے گا رستہ رستہ اندھیرے بکھر جائیں گے اور تم کو ہوا بن کے چپ چاپ اندھے سفر پر نکلنا پڑے گا ہزاروں برس موت کی وادیوں میں بھٹکنا پڑے ...

    مزید پڑھیے

    دلی 25 جون 1975

    پل ہی پل میں یہ سارا تماشا ہوا شہر کے پانو میں سنسناتی ہوئی ایک گولی لگی اور وہ چکرا کے دھرتی پہ اوندھا گرا دیکھتے دیکھتے اس کے چاروں طرف خون کا ایک تالاب سا بن گیا جھاڑیوں سے ڈری سہمی چڑیاں اڑیں اونچے اونچے درختوں کے گنجان پتوں میں دبکے ہوئے سب پرندے اڑے چیختے چیختے اور دہشت ...

    مزید پڑھیے

    آزاد شہری: ایک تعارف

    وہ مرنے پہ راضی نہیں تھا بڑا ڈھیٹ تھا شاہی فرمان پر اس نے اپنی زباں کاٹ لی تھی وہ آنکھوں سے اندھا تھا کانوں سے بہرا اسے اپنے چاروں طرف دیکھنے کی اجازت نہیں تھی سماعت پہ پابندیاں تھیں مگر شاہی دستور میں ذکر ایسی کسی بات کا بھی نہیں تھا وہ آزاد تھا اپنے گھر کی حدوں تک بدن کی تہوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ گرتا ہوا شہر میرا نہیں

    یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں ہوا سے الجھتا ہوا میں چلا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں رات کے دشت میں تیرے میرے مکاں دور ہوتے چلے جا رہے ہیں لہو کے اجالے بھی معدوم ہیں اور تاریک گنبد میں معصوم روحوں کے کہرام میں بے صدا آسماں کی طرف خوں میں لتھڑے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    پرانے شہروں کا سفر

    جب میں اپنے بہت پرانے شہروں میں جاؤں گا میری گٹھری میں مٹھی بھر مٹی کچھ پھل پھول، ستارے ہوں گے کچھ گلیاں، کچھ مورتیاں کچھ رنگ برنگ عقیدے کچھ نظارے ہوں گے اور مرے ہم راہ، مرے احباب برہا کے مارے ہوں گے ہوا کہے گی کیوں آئے ہو یہ سب چیزیں کیوں لائے ہو آسمان پر اڑتے ہوئے انجان ...

    مزید پڑھیے

    دائرہ

    یہ سچ ہے کہ میں اس تماشے میں شامل نہیں پھر یہ کیسی سزا مل رہی ہے مجھے یہ میں کس دائرے میں کھڑا ہوں جہاں آج کوئی نہیں ایک میرے سوا وہ ہوا جو کبھی مجھ سے وابستہ تھی آج مجھ سے جدا ہو گئی میری آواز کے ساتھ جانے کہاں کھو گئی یہ میں کس دائرے میں کھڑا ہوں جہاں اک سیاہی ہے گہری گھنی ہر ...

    مزید پڑھیے

    نیند

    نیند میٹھی نیند آنکھوں میں بھری ہے دھند میں ہر چیز ڈوبی جا رہی ہے پانیوں پر جیسے بہتا جا رہا ہوں ساحلوں سے دور ہوتا جا رہا ہوں دیکھا ان دیکھا سا کچھ رنگ خلا ہے ایک بے آواز آواز ہوا ہے رشتۂ‌ رنگ و صدا سے کٹ گیا ہوں دھند گہری اور گہری ہو گئی ہے اک پرانی گونج دل میں گونجتی ہے دور کی اک ...

    مزید پڑھیے

    اس کا دکھ

    وہ منتظر تھی ہزار صدیوں سے منتظر تھی میں ایک ذرہ ہوا کے رتھ پر سوار، ہنستا ہوا خلاؤں میں گنگناتا ہزارہا سال کے سبھی حادثوں کی گرمی رگوں میں بھر کر گھنے درختوں کے نرم سایوں میں آ کے اترا وہ منتظر تھی مجھے تھکن سے نڈھال دیکھا تو کھلکھلا کر لپٹ گئی مجھ سے بے تحاشا مرے بدن کو وہ رنگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3