خوشبوئے درد کے بغیر رنگ جمال کے بغیر
خوشبوئے درد کے بغیر رنگ جمال کے بغیر
کیسے گزر گئی حیات ہجر و وصال کے بغیر
ان میں ترا ہی رنگ ہے ان میں ترا ہی روپ ہے
پھولوں کی کیا مثال دوں تیری مثال کے بغیر
میری طلب کو پڑھ لیا اس کی نگاہ تیز نے
سو سو ہیں عذر اس کے پاس میرے سوال کے بغیر
تو میرا حوصلہ تو دیکھ پھر ہوں اسی کے روبرو
تیر و تبر ہیں اس کے پاس اور میں ڈھال کے بغیر
بڑھ جا تو مجھ کو روند کر منزل نو کی لے خبر
تیرا عروج ہے محال میرے زوال کے بغیر
پاشیؔ وہ دل کا شہر ہو دشت ہو یا وہ بحر ہو
روشن نہیں کوئی جگہ ان کے جمال کے بغیر