لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے

لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے
ہم بیابانوں میں تب خاک اڑانے نکلے


کھل گیا دفتر صد رنگ ملاقاتوں کا
حسن کے ذکر پہ کیا کیا نہ فسانے نکلے


عشق کا روگ کہ دونوں سے چھپایا نہ گیا
ہم تھے سودائی تو کچھ وہ بھی دوانے نکلے


جب کھلے پھول چمن میں تو تری یاد آئی
چند آنسو بھی مسرت کے بہانے نکلے


شہر والے سبھی بے چہرہ ہوئے ہیں پاشیؔ
ہم یہ کن لوگوں کو آئینہ دکھانے نکلے