محفل میں کسی کی ہم نے انہیں اک بار ذرا دیکھا ہی تو ہے
محفل میں کسی کی ہم نے انہیں اک بار ذرا دیکھا ہی تو ہے
یوں نام پہ ان کے دھڑکے ہے دل گویا ان سے رشتہ ہی تو ہے
یادوں کے سہانے موسم میں اس گرم بدن کی آنچ لیے
چل نکلے ہیں ہم یوں خوش خوش ہے جیسے وہ ادھر رہتا ہی تو ہے
ہم کچھ بھی کہیں لیکن ان سے جو ایک تعلق تھا نہ رہا
رشتے کی حقیقت کیا معنی بس ٹوٹ گیا دھاگا ہی تو ہے
کیا کیا نہ عجب لمحے گزرے تنہائیٔ شب میں اس دل پر
خوش فہمی کہ سب کہہ ڈالوں گا جیسے وہ مری سنتا ہی تو ہے
بے سمت چلے تو ہیں لیکن ہم جانتے ہیں انجام سفر
بے کار ہے جی کو کلپانا دو چار گھڑی چلنا ہی تو ہے
آپ اپنے سے باہر آ کر بھی سب دیکھ لیا سب جان لیا
عالم ہے یہ سارا بھید بھرا پردے سے پرے پردا ہی تو ہے
تنہائی میں شام فرقت کی یہ سوچ کے خوش ہے جی اپنا
آئے گا منا لیں گے اس کو جیسے وہ ادھر آتا ہی تو ہے
ہر صنف سخن کو پاشیؔ جی اک طرز نئی دی ہے ہم نے
ہر اک سے الگ ہر اک سے جدا ہر شعر میں عکس اپنا ہی تو ہے