Kumar Pashi

کمار پاشی

ممتاز جدید شاعر،رسالہ "سطور" کے مدیر

Prominent modernist poet who also edited a literary Magazine 'Satoor'

کمار پاشی کے تمام مواد

26 غزل (Ghazal)

    کیوں ڈراتے ہو مجھے موت کا سایا بن کر

    کیوں ڈراتے ہو مجھے موت کا سایا بن کر میرے سینے میں اتر جاؤ اجالا بن کر کیوں نہیں چلتے کہ جانا ہے بہت دور ابھی کیوں یہاں رک گئے بے کار تماشا بن کر ٹوٹ کر بجھ گئے آکاش کے سارے سورج اور میں رہ گیا اس دہر میں اندھا بن کر میں ہی اک زہر لگا اپنوں کو بیگانوں کو میں ہی اک قتل ہوا شہر میں ...

    مزید پڑھیے

    میں ڈھونڈھتا ہوں جسے آج بھی ہوا کی طرح

    میں ڈھونڈھتا ہوں جسے آج بھی ہوا کی طرح وہ کھو گیا ہے خلا میں مری صدا کی طرح نہ پوچھ مجھ سے مرا قصۂ زوال جنوں میں پانیوں پہ برستا رہا گھٹا کی طرح تمام عمر رہا ہوں میں جسم میں محصور تمام عمر کٹی ہے مری سزا کی طرح اتار دے کوئی مجھ پر سے یہ بدن کی ردا کہ مار ڈالے مجھے بھی مرے خدا کی ...

    مزید پڑھیے

    تری شکست ہے ظاہر ترا زوال اٹل

    تری شکست ہے ظاہر ترا زوال اٹل یہی ہے تیرا مقدر کہ اپنی آگ میں جل خطا کہ تو نے کی یاروں کے قتل کی خواہش سزا کہ اپنے جنازے کو خود اٹھا کر چل کسی طرح سے مٹا دے یہ نقش ہائے یقیں کسی طرح سے بھی اس شہر آرزو سے نکل ستم کہ ٹوٹ رہا ہے طلسم حرف و نوا فغاں کہ بجھنے لگی ہے خیال کی ...

    مزید پڑھیے

    آیا بسنت پھول بھی شعلوں میں ڈھل گئے

    آیا بسنت پھول بھی شعلوں میں ڈھل گئے میں چومنے لگا تو مرے ہونٹ جل گئے لپکا مرے خیال کا کوندا کچھ اس طرح چاروں طرف جو لفظ پڑے تھے پگھل گئے رنگوں کے اہتمام میں صورت بگڑ گئی لفظوں کی دھن میں ہاتھ سے معنی نکل گئے جھونکے نئی رتوں کے جو گزرے قریب سے بیتے دنوں کی دھول مرے منہ پہ مل ...

    مزید پڑھیے

    کیسا عجب تماشا دیکھ رہا ہوں

    کیسا عجب تماشا دیکھ رہا ہوں عالم عالم سایا دیکھ رہا ہوں ذرہ ذرہ ٹوٹ رہی ہے دھرتی خود کو جیسے لٹتا دیکھ رہا ہوں رستہ رستہ سہل ہوا ہے چلنا آگے آگے سایا دیکھ رہا ہوں موسم موسم پھیل رہی ہے خوشبو دور سے تجھ کو آتا دیکھ رہا ہوں بوچھاروں میں برس رہے ہیں بادل اور میں خود کو جلتا دیکھ ...

    مزید پڑھیے

تمام

28 نظم (Nazm)

    رشتوں کی پہچان

    ہمیں سب پتا ہے کہ ہم دھرتیوں کے نرالے فسوں سے ازل سے شناسا ہیں اور نیلگوں آسمانوں کا نشہ بھی ہم نے چکھا ہے انہیں غم یہی ہے کہ ان کے سروں پر کوئی آسماں ہے نہ پاؤں کے نیچے زمیں ہے فقط اک خریدا ہوا کرب قسمت ہے ان کی ہمیں سب پتا ہے انہیں لوٹنا ہے پشیمان ہو کر سفر کے دکھوں سے پریشان ہو ...

    مزید پڑھیے

    خواب تماشا(۳)

    سنجے بولے اتر دکشن پورب پشچم اب کوئی بھی منظر صاف نہیں نقشے ہیں کئی پیلے نیلے دو سیارے اوپر نیچے اک سورج سے ٹکرا ہی گیا ہر سمت وہی پیلی آندھی اور اندھے جھکڑ شعلوں کے تم کس نقطے کی پوچھتے ہو اب کوئی بھی منظر صاف نہیں اب کوئی نہیں ہاں وہ بھی نہیں یہ کس کا خواب تماشا ہے میں جس میں ...

    مزید پڑھیے

    میرا جرم

    دیوتاؤں نے مجھ سے کہا تھا کہ جب چندر ماؤں کے آئینوں پر گرد جم جائے گی اور سورج سمندر کی گہرائیوں میں اتر جائیں گے تب ہر اک رنگ کالک میں تبدیل ہو جائے گا رستہ رستہ اندھیرے بکھر جائیں گے اور تم کو ہوا بن کے چپ چاپ اندھے سفر پر نکلنا پڑے گا ہزاروں برس موت کی وادیوں میں بھٹکنا پڑے ...

    مزید پڑھیے

    دلی 25 جون 1975

    پل ہی پل میں یہ سارا تماشا ہوا شہر کے پانو میں سنسناتی ہوئی ایک گولی لگی اور وہ چکرا کے دھرتی پہ اوندھا گرا دیکھتے دیکھتے اس کے چاروں طرف خون کا ایک تالاب سا بن گیا جھاڑیوں سے ڈری سہمی چڑیاں اڑیں اونچے اونچے درختوں کے گنجان پتوں میں دبکے ہوئے سب پرندے اڑے چیختے چیختے اور دہشت ...

    مزید پڑھیے

    آزاد شہری: ایک تعارف

    وہ مرنے پہ راضی نہیں تھا بڑا ڈھیٹ تھا شاہی فرمان پر اس نے اپنی زباں کاٹ لی تھی وہ آنکھوں سے اندھا تھا کانوں سے بہرا اسے اپنے چاروں طرف دیکھنے کی اجازت نہیں تھی سماعت پہ پابندیاں تھیں مگر شاہی دستور میں ذکر ایسی کسی بات کا بھی نہیں تھا وہ آزاد تھا اپنے گھر کی حدوں تک بدن کی تہوں ...

    مزید پڑھیے

تمام