دلی 25 جون 1975

پل ہی پل میں یہ سارا تماشا ہوا
شہر کے پانو میں سنسناتی ہوئی
ایک گولی لگی
اور وہ چکرا کے
دھرتی پہ اوندھا گرا
دیکھتے دیکھتے اس کے چاروں طرف
خون کا ایک تالاب سا بن گیا


جھاڑیوں سے ڈری سہمی چڑیاں اڑیں
اونچے اونچے درختوں کے
گنجان پتوں میں دبکے ہوئے
سب پرندے اڑے
چیختے چیختے
اور دہشت زدہ آسمانوں
کے صحراؤں میں کھو گئے
خون کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے
اس میں چپ چاپ اوندھا پڑا شہر ہے
کاش دے کر ذرا سا سہارا اسے
اب اٹھا لے کوئی
اس کی ایڑی کی ہڈی میں اٹکی ہوئی
گرم زہریلی گولی نکالے کوئی
شہر زندہ ہے اب تک
بچا لے کوئی