میں ڈھونڈھتا ہوں جسے آج بھی ہوا کی طرح
میں ڈھونڈھتا ہوں جسے آج بھی ہوا کی طرح
وہ کھو گیا ہے خلا میں مری صدا کی طرح
نہ پوچھ مجھ سے مرا قصۂ زوال جنوں
میں پانیوں پہ برستا رہا گھٹا کی طرح
تمام عمر رہا ہوں میں جسم میں محصور
تمام عمر کٹی ہے مری سزا کی طرح
اتار دے کوئی مجھ پر سے یہ بدن کی ردا
کہ مار ڈالے مجھے بھی مرے خدا کی طرح
نکھرتا جائے یوں ہی رنگ شام اے پاشیؔ
بکھرتا جاؤں یوں ہی میں گل نوا کی طرح