تری شکست ہے ظاہر ترا زوال اٹل

تری شکست ہے ظاہر ترا زوال اٹل
یہی ہے تیرا مقدر کہ اپنی آگ میں جل


خطا کہ تو نے کی یاروں کے قتل کی خواہش
سزا کہ اپنے جنازے کو خود اٹھا کر چل


کسی طرح سے مٹا دے یہ نقش ہائے یقیں
کسی طرح سے بھی اس شہر آرزو سے نکل


ستم کہ ٹوٹ رہا ہے طلسم حرف و نوا
فغاں کہ بجھنے لگی ہے خیال کی مشعل


ایلیناپاؔ بھی نہیں اور وہ بے وفا بھی نہیں
سنائیں شہر میں پاشیؔ کسے یہ تازہ غزل