Khalilur Rahman Azmi

خلیل الرحمن اعظمی

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding fathers of modern Urdu criticism in the subcontinient.

خلیل الرحمن اعظمی کی غزل

    بس کہ پابندی آئین وفا ہم سے ہوئی

    بس کہ پابندی آئین وفا ہم سے ہوئی یہ اگر کوئی خطا ہے تو خطا ہم سے ہوئی زندگی تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کیا اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی رات بھر چین سے سونے نہیں دیتی ہم کو اتنی مایوس تری زلف رسا ہم سے ہوئی سر اٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا بس ترے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ...

    مزید پڑھیے

    اے ناصحو نہ اور کوئی گفتگو کرو

    اے ناصحو نہ اور کوئی گفتگو کرو گر ہو سکے تو چاک گریباں رفو کرو ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو پھر جس طرح بھی چاہو کرو ہم پہ تبصرہ پہلے ہماری طرح سے جینے کی خو کرو پھر کوئی لے گیا ہے چراغوں کی روشنی تا صبح آج اپنے جگر کو لہو کرو وہ تو نہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں

    خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں یوں شہر تا بہ شہر جو بکھرا ہوا ہوں میں میں ڈھونڈنے چلا ہوں جو خود اپنے آپ کو تہمت یہ مجھ پہ ہے کہ بہت خود نما ہوں میں مجھ سے نہ پوچھ نام مرا روح کائنات اب اور کچھ نہیں ہوں ترا آئینہ ہوں میں جب نیند آ گئی ہو صدائے جرس کو بھی میری خطا یہی ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ہزار طرح سے گردش میں آفتاب رہا

    ہزار طرح سے گردش میں آفتاب رہا نگاہ ناز کا لیکن کہاں جواب رہا وہ آ گئے ہیں تو اب چھوڑو اس فسانے کو کہاں کہاں میں پھرا کس طرح خراب رہا سنا رہا ہوں انہیں جھوٹ موٹ اک قصہ کہ ایک شخص محبت میں کامیاب رہا اگرچہ اور بھی فتنے اٹھے قیامت کے ترا شباب ہی عالم میں انتخاب رہا رہ حیات میں ہم ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں

    دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں نام نہیں ہے کوئی کسی کا روپ نہیں ہے کوئی میں کس کا سایہ ہوں کس کے سائے سے ٹکراؤں سستے داموں بیچ رہے ہیں اپنے آپ کو لوگ میں کیا اپنا مول بتاؤں کیا کہہ کر چلاؤں اپنے سپید و سیہ کا مالک ایک طرح سے میں ...

    مزید پڑھیے

    درمیاں خود اپنی ہستی ہو تو ہم بھی کیا کریں

    درمیاں خود اپنی ہستی ہو تو ہم بھی کیا کریں آئینہ دیکھیں کہ اپنے آپ سے پردا کریں When one’s being is in between what action should entail Should one look into the mirror or else cast a veil? حال کے سیلاب میں تو بہہ گئی ماضی کی لاش دفن اب کس کی گلی میں ہم غم فردا کریں In floods of present time the corpse of past is swept away In whose street should one inter tomorrow’s ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کھو گئی روح کی روشنی

    کہاں کھو گئی روح کی روشنی بتا میری راتوں کو آوارگی! میں جب لمحے لمحے کا رس پی چکا تو کچھ اور جاگی مری تشنگی اگر گھر سے نکلیں تو پھر تیز دھوپ مگر گھر میں ڈستی ہوئی تیرگی غموں پر تبسم کی ڈالی نقاب تو ہونے لگی اور بے پردگی مگر جاگنا اپنی قسمت میں تھا بلاتی رہی نیند کی جل پری جو ...

    مزید پڑھیے

    وہ رنگ رخ وہ آتش خوں کون لے گیا

    وہ رنگ رخ وہ آتش خوں کون لے گیا اے دل ترا وہ رقص جنوں کون لے گیا زنجیر آنسوؤں کی کہاں ٹوٹ کر گری وہ انتہائے غم کا سکوں کون لے گیا درد نہاں کے چھین لیے کس نے آئینے نوک مژہ سے قطرۂ خوں کون لے گیا جو مجھ سے بولتی تھیں وہ راتیں کہاں گئیں جو جاگتا تھا سوز دروں کون لے گیا کس موڑ پر ...

    مزید پڑھیے

    میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں

    میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں سایہ سایہ پکارتا ہوں سونا ہوں کرید کر تو دیکھو مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں لے مجھ کو سنبھال گردش وقت ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی در اصل میں غم سے آشنا ہوں صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں دشمن ہو کوئی کہ ...

    مزید پڑھیے

    نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں

    نشۂ مے کے سوا کتنے نشے اور بھی ہیں کچھ بہانے مرے جینے کے لیے اور بھی ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی سی مگر غم سے ہے بھرپور ہوا کئی بادل مری آنکھوں سے پرے اور بھی ہیں عشق رسوا ترے ہر داغ فروزاں کی قسم میرے سینے میں کئی زخم ہرے اور بھی ہیں زندگی آج تلک جیسے گزاری ہے نہ پوچھ زندگی ہے تو ابھی کتنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5