کتبہ(۶)
میرا پیارا ننھا یہاں سو رہا ہے اسے پھول سے پیار تھا وہ خود پھول تھا میں ہر صبح آتا ہوں کچھ پھول لے کر اسے تازہ پھولوں کی چادر سے ڈھک کر چلا جاتا ہوں تاکہ کل صبح تک اس کی معصوم روح اپنے پھولوں کی آغوش میں مسکراتی رہے
جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں نمایاں
One of the founding fathers of modern Urdu criticism in the subcontinient.
میرا پیارا ننھا یہاں سو رہا ہے اسے پھول سے پیار تھا وہ خود پھول تھا میں ہر صبح آتا ہوں کچھ پھول لے کر اسے تازہ پھولوں کی چادر سے ڈھک کر چلا جاتا ہوں تاکہ کل صبح تک اس کی معصوم روح اپنے پھولوں کی آغوش میں مسکراتی رہے
برسوں سے یہ بام و در کہ جن پر مہکی ہوئی صبح کے ہیں بوسے یادوں کے یہی نگر کہ جن پر سجتے ہیں یہ شام کے دھندلکے یہ موڑ یہ رہ گزر کہ جن پر لگتے ہیں اداسیوں کے میلے ہیں میرے عزیز میرے ساتھی کب سے مرا آسرا رہے ہیں سنتے ہیں یہ میرے دل کی دھڑکن جیسے یہ مجھے سکھا رہے ہیں ہنس بول کے عمر کاٹ ...
خدایا! نہ میں نے کہیں سر جھکایا نہ دنیا میں احسان اب تک کسی کا اٹھایا مرے سر پہ جب دھوپ ہی دھوپ تھی اس گھڑی میں نہ ڈھونڈا کہیں کوئی سایہ تو اب تو ہی آ کر مری آبرو کو بچا لے یہی ایک تحفہ ہے جو میں ترے پائے اقدس پہ رکھ دوں گا اور یہ کہوں گا یہی میری پونجی، یہی ہے کمائی مجھے اور کچھ بھی ...
جب بھی گیت سنتا ہوں شام کی ہواؤں کے کتنے پیارے لگتے ہیں یہ درخت یہ پودے جیسے میری گردن میں ڈال کر کوئی باہیں میری دل کی سب باتیں مجھ سے پوچھنا چاہے تم کو کون سا غم ہے کیوں اداس رہتے ہو؟ تم پہ جو گزرتی ہے کہہ سکو تو کہہ ڈالو مجھ سے چاہتے ہیں کچھ یہ ہرے ہرے پتے یہ رفیق تنہائی یہ چمن کے ...
کہہ نہیں سکتا کہاں سے آئے ہو، تم کون ہو ایسا لگتا ہے کہ یہ صورت ہے پہچانی ہوئی خاک میں روندا ہوا چہرہ مگر اک دل کشی آنکھ میں ہلکا تبسم، دل میں کوئی ٹیس سی پاؤں سے لپٹی ہوئی بیتے ہوئے لمحوں کی گرد پیرہن کے چاک میں گہرے غموں کی تازگی پرسش غم پر بھی کہہ سکنا نہ اپنے جی کا حال کچھ کہا ...
اے مرے سن و سال کے حاصل میرے آنگن کے نو دمیدہ گلاب میرے معصوم خواب کے ہم شکل میری مریم کے سایۂ شاداب صبح تخلیق کا سلام تجھے زندگی تجھ کو کہتی ہے آداب اے مقدس زمیں کے شعلۂ نو تو فروزاں ہو ان فضاؤں میں میرے سینے کی جو امانت ہیں جو مری نارسا دعاؤں میں اس طرح مسکراتی ہے جیسے نغمگی ...
حروف و الفاظ کے ذخیرے یہی ہیں وہ دائرے کہ جن میں اسیر تم بھی ہو اور میں بھی تمھارا جو نام چند حرفوں سے مل کے بنتا ہے چاہے مفہوم اس کا کچھ بھی ہو چاہے مفہوم سے وہ خالی ہو چاہے اس کیفیت کے برعکس ہو جو تم میں نمود پاتی ہے ایسی اک روح جو کسی جسم میں کسی آئینہ میں اتری ہو ایک پیکر میں ڈھل ...
جو مجھ پہ بیتی ہے اس کی تفصیل میں کسی سے نہ کہہ سکوں گا جو دکھ اٹھائے ہیں، جن گناہوں کا بوجھ سینے میں لے کے پھرتا ہوں، ان کو کہنے کا مجھ کو یارا نہیں ہے، میں دوسروں کی لکھی ہوئی کتابوں میں، داستاں اپنی ڈھونڈھتا ہوں جہاں جہاں سرگزشت میری ہے ایسی سطروں کو میں مٹاتا ہوں روشنائی سے ...
اور پھر یوں ہوا جو پرانی کتابیں، پرانے صحیفے بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے انہیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے ان کے الفاظ سے کوئی مطلب نکلتا نہیں ہے جو تعبیر و تفسیر اگلوں نے کی تھی معانی و مفہوم جو ان پہ چسپاں کئے تھے اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے اور پھر یوں ...
یہ کتبہ فلاں سن کا ہے یہ سن اس لیے اس پر کندہ کیا کہ سب وارثوں پر یہ واضح رہے کہ اس روز برسی ہے مرحوم کی عزیز و اقارب یتامیٰ مساکین کو ضیافت سے اپنی نوازیں سبھی کو بلائیں کہ سب مل کے مرحوم کے حق میں دست دعا کو اٹھائیں زباں سے کہیں اپنی'' مرحوم کی مغفرت ہو'' بزرگ مقدس کے نام مقدس پہ ...