کوثر صدیقی کی غزل

    انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے

    انجام شب غم کا لکھا اور ہی کچھ ہے لگتا ہے کہ منظور خدا اور ہی کچھ ہے شاید ابھی تشخیص مرض ہو نہیں پائی بیماری ہے کچھ اور دوا اور ہی کچھ ہے سب پیار کی تشہیر کیا کرتے ہیں لیکن ماحول ہے کچھ اور فضا اور ہی کچھ ہے نافہم اگر نغمہ سمجھتے ہیں تو سمجھیں گلشن میں عنادل کی نوا اور ہی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بے حجابانہ کبھی دعوت دیدار بھی دے

    بے حجابانہ کبھی دعوت دیدار بھی دے لذت عشق بھی دے عشق کا آزار بھی دے مسند علم و ادب پر متمکن فرما نغمہ و شعر بھی دے خامۂ گل کار بھی دے طاق ہر بزم میں رکھ شمع بنا کر مجھ کو اور پروانہ صفت لذت آزار بھی دے گل کی مانند خموشی کے بھی آداب سکھا اور بلبل کی طرح شوخئ گفتار بھی دے توڑ دے ...

    مزید پڑھیے

    یکتائے روزگار ہمارا مکان تھا

    یکتائے روزگار ہمارا مکان تھا نیچے زمیں تھی سر پہ کھلا آسمان تھا اب شاخ آشیاں ہے نہ تنکے نصیب ہیں آئے گا ایسا وقت بھی کس کو گمان تھا آیا جو انقلاب تو سب کچھ بدل گیا پہلے یہی زمیں تھی یہی آسمان تھا تنہائیوں نے فرض ضیافت ادا کیا کل رات اپنے گھر ہی میں میں مہمان تھا آج ان پہ ملتفت ...

    مزید پڑھیے

    بجھ چکی آگ مگر اب بھی جلن باقی ہے

    بجھ چکی آگ مگر اب بھی جلن باقی ہے میری آنکھوں میں شب غم کی چبھن باقی ہے کانچ کے ظرف ضروری نہیں پینے کے لیے اب بھی مٹی کے پیالوں کا چلن باقی ہے ہونے والا ہے شب غم کا سویرا لیکن اب بھی آنکھوں میں اندھیروں کی گھٹن باقی ہے کب فصیلوں نے ہواؤں کے سفر کو روکا پھر بھی دیوار کا زنداں میں ...

    مزید پڑھیے

    دوریاں ہی دوریاں ہیں قربتوں کے باوجود

    دوریاں ہی دوریاں ہیں قربتوں کے باوجود اجنبی ہیں سب قریبی نسبتوں کے باوجود رنگ و بو سے جان تو کاغذ میں پڑ سکتی نہیں کاغذی گل کاغذی ہیں نکہتوں کے باوجود سختیٔ صحرا نوردی ہی مسرت بخش ہے دل نہیں لگتا قفس میں راحتوں کے باوجود بے حسی بے غیرتی بھی جزو فطرت بن گئی ہنس رہا ہوں انجمن ...

    مزید پڑھیے

    سوز دل ہے خامشی سے جل کے بجھ جانے کا نام

    سوز دل ہے خامشی سے جل کے بجھ جانے کا نام زندگی ہے شمع گل کے اشک برسانے کا نام میری نظریں آپ کی جانب ہیں دنیا پر نہیں آپ کیا کہتے ہیں دیکھوں اپنے دیوانے کا نام ہے فروغ شمع تک ہنگامۂ بزم حیات صبح دم لیتا نہیں ہے کوئی پروانے کا نام حسن ہے اک بے نیازانہ چراغ دل فریب عشق ہے انجام سے ...

    مزید پڑھیے

    خندۂ گل میں بھی پوشیدہ فغاں ہو جیسے

    خندۂ گل میں بھی پوشیدہ فغاں ہو جیسے شاخ گل انجمن نوحہ گراں ہو جیسے آپ نے کہہ دی وہی بات جو منہ پر تھی مرے آپ کے منہ میں بھی میری ہی زباں ہو جیسے ایسا لگتا ہے شہنشاہ جہانگیر ہوں میں ملکۂ عالیہ تم نور جہاں ہو جیسے کچھ عجب طرز کی اس سال جلی ہے ہولی زندہ لاشوں کی چتاؤں کا دھواں ہو ...

    مزید پڑھیے

    درد کا گہرا سمندر اور میں

    درد کا گہرا سمندر اور میں زندگی کا سر پہ پتھر اور میں اس طرف شیشے ہی شیشے اور وہ اس طرف پتھر ہی پتھر اور میں ہے یہی عہد جنوں کی یادگار ایک کوچہ ایک پتھر اور میں ٹوٹ جانے کو ہیں سب جام و سبو ایک لغزش ایک ٹھوکر اور میں بن گیا تاریخ کا خونیں ورق پشت میں پیوست خنجر اور میں یہ مثلث ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے مد مقابل رہا کسی کے لیے

    ہوا کے مد مقابل رہا کسی کے لیے میں وہ دیا ہوں جو شب بھر جلا کسی کے لیے ہمارے واسطے کوئی دعا کرے نہ کرے ہمارے پاس نہیں بد دعا کسی کے لیے ہوا کے خوف سے مت بیٹھ گھپ اندھیرے میں جلائے جا تو دیے پر دیا کسی کے لیے بچا کے شمع دل و جاں میں کس لیے رکھتا میں جل گیا سر راہ وفا کسی کے لیے نہ ...

    مزید پڑھیے

    چند لمحوں میں غبار کارواں رہ جائے گا

    چند لمحوں میں غبار کارواں رہ جائے گا خاک ہو جاؤں گا میں جل کر دھواں رہ جائے گا شمع محفل رقص بسمل کا نہ ہوگا کچھ وجود انجمن میں گریۂ نوحہ گراں رہ جائے گا کر کے ہجرت دور صحرا میں چلے جائیں گے لوگ شہر میں جلتے مکانوں کا دھواں رہ جائے گا ڈھانپ دے گا اپنی چادر سے مجھے گرد و ...

    مزید پڑھیے